راستے میں چلتے وقت گھر میں بازار میں اور کافی جگہوں پر کافی سارے ورق پڑے ہوئے ملتے ہیں، جس میں اللہ تعالی کے نام اور بھی کافی نام لکھے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے لیے کیا حکم ہے؟ جس طرح نیوز پیپر، شادی کارڈ، جلسوں کے اشتہارات ودیگر دستاویزات وغیرہ وغیرہ ہوتے ہیں، پھر ان کے اندر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺکے اسم گرامی ساتھ ہی قرآنی آیات اور احادیث بھی پائی جاتی ہيں، اور کافی پر کعبہ اور روضۂ رسول کی تصاویر بھی ہوتی ہیں ۔ اس طرح کے کافی سارے ملتے ہیں راستوں پر ، پھر ان کو ایک جگہ پر رکھنا یا پھر زمین میں دفن کرنا یا پانی میں بہانا ممکن ہوتا ہے، تو ایسے کاغذات کے لیے کیا حکم ہے؟ اگر یہ راستوں پر ہوں گے تو توہین ہوگی، کیا یہ مناسب طریقہ ہے؟ ان سب کو ایک ساتھ اکٹھا کر کے آگ لگائی جائے؟
واضح رہے کہ ایسے اوراق جن میں اللہ تعالی یا نبی کریم ﷺ کا نام تحریر ہو یا قرآن کی کوئی آیت ہو، یا کوئی حدیث مبارکہ تحریر ہو ،اس کا احترام تمام مسلمانوں پر ہر حال میں لازم ہے، چاہے وہ اورق پڑھنے کے قابل ہو یا بوسیدہ ہوچکے ہوں، بہر حال ادب لازم ہے، لہذا ایسے اورق کو اگر استعمال کے قابل نہ ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں:
1۔ان اوراق کو پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی پرانے ناقابل استعمال کنویں میں ڈال دیں، یا کسی پاک جگہ میں قبر بنا کرپہلے مقدس اوراق کو رکھے جائیں پھر اس کے اوپر سلیٹ یا کوئی رکاوٹ ڈال کر پھر اس کے اوپر مٹی ڈال کر دفن کردیں، یا بغلی قبر بناکر دفن کردیں۔
2۔ ان اوراق کے ساتھ کوئی وزنی چیز رکھ کر ان کو گہرے سمندر میں ڈال دیں تاکہ وہ سمندر کی تہہ میں چلے جائیں۔
اگر آپ خود ایسا نہیں کرسکتے تو کسی بھی ایسے با اعتماد ادارے کے حوالے کردیں ،جو مقدس اوراق کی تدفین کرتے ہیں یا ان کو گہرے سمندر میں ٹھنڈا کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ ان اوراق کا حکم ہے جن میں قرآن کی کوئی آیت یا کوئی بھی حدیث مبارکہ یا مقدس ہستیوں کے نام تحریر ہوں ،لہذا ان کے علاوہ جو دیگر نام کے اوراق ہیں ان کا بھی احترام جس قدر ممکن ہو کرنا چاہیے، لہذا ان کو تلف کرنے کا بھی وہی طریقہ ہے جو اوپر مذکور ہے، البتہ اس کے علاوہ ان اوراق کو ری سائیکلنگ والوں کے حوالے کرنا یا جلانے کی بھی گنجائش ہے،اگر ان کے علاوہ بھی کوئی جائز طریقہ ان کو تلف کرنے کے لیے ہو تو وہ جائز طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"والدفن أحسن كما في الأنبياء والأولياء إذا ماتوا، وكذا جميع الكتب إذا بليت وخرجت عن الانتفاع بها اهـ. يعني أن الدفن ليس فيه إخلال بالتعظيم، لأن أفضل الناس يدفنون. وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقا وتعذر القراءة منه لا يحرق بالنار إليه أشار محمد وبه نأخذ، ولا يكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة، ويلحد له لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لا تصل إليه يد محدث ولا غبار، ولا قذر تعظيما لكلام الله عز وجل اهـ."
(كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،6/ 422، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"المصحف إذا صار خلقا لا يقرأ منه ويخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن، ودفنه أولى من وضعه موضعا يخاف أن يقع عليه النجاسة أو نحو ذلك ويلحد له؛ لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضا، كذا في الغرائب.
المصحف إذا صار خلقا وتعذرت القراءة منه لا يحرق بالنار، أشار الشيباني إلى هذا في السير الكبير وبه نأخذ، كذا في الذخيرة."
(كتاب الكراهية،الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،323/5، ط: ماجدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507100628
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن