ایک امام صاحب نے عشاء کی نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ الشعراء کے گیارہوں رکوع سے تلاوت شروع کی اور آیت نمبر 194،193،192 پڑھیں،آیت نمبر 194 کے ختم پر منذرین کے لفظ کے بجائے مومنین کالفظ پڑھا اور رکوع میں چلے گئے اور نماز بغیر سجدہ سہو کے مکمل کردی گی،سوال یہ ہے۔
1)کیا نماز صحیح ہوگئی۔
2)اس طرح کی غلطی(تین آیات کی مقدار کے پورا ہونے سے پہلے)نماز میں ہونے سے نماز ہوجاتی ہے؟
3)اگر تلاوت میں کوئی غلطی تین آیات کے بعد ہو اور اس سے معانی تبدیل ہوجاتے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران الفاظ کے تلفظ کی مطلق کمی یا معنی کی مطلق تبدیلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی، بلکہ اگر قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے اور غلط پڑھی گئی آیت یا جملے اور صحیح الفاظ کے درمیان وقفِ تام بھی نہ ہو (کہ مضمون کے انقطاع کی وجہ سے نماز کے فساد سے بچاجاسکے) اور نماز میں اس غلطی کی اصلاح بھی نہ کی جائے تو نماز فاسد ہوجاتی ہوگی۔
1)صورتِ مسئولہ میں اگر چہ کے منذرین کے لفظ کےبجائے مومنین کا لفظ پڑھنے سےاگرچہ معنی میں تبدیلی آجاتی ہے،لیکن ایسی تبدیلی نہیں ہوئی،جس کو تغیر فاحش کہا جاسکے،لہذا نماز درست ہے۔
2۔3)نمازمیں تلاوت کے دوران اگر کوئی غلطی ہوجائےاور وہ غلطی خواہ تین آیات کی تلاوت کے بعد ہو یا تین آیات سے کم میں ،لیکن وہ غلطی ایسی ہو کہ جس سے معنی میں تغیر فاحش ہوجائے اور اسی رکعت میں وہ غلطی درست نہ کی ہو تو نماز فاسد ہوجاتی ہے،اگر معنی میں تغیر فاحش نہیں ہوا تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(ومنها) ذكر كلمة مكان كلمة على وجه البدل إن كانت الكلمة التي قرأها مكان كلمة يقرب معناها وهي في القرآن لا تفسد صلاته نحو إن قرأ مكان العليم الحكيم وإن لم تكن تلك الكلمة في القرآن لكن يقرب معناها عن أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا تفسد وعن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - تفسد نحو إن قرأ التيابين مكان التوابين وإن لم تكن تلك الكلمة في القرآن ولا تتقاربان في المعنى تفسد صلاته بلا خلاف إذا لم تكن تلك الكلمة تسبيحا ولا تحميدا ولا ذكرا وإن كان في القرآن ولكن لا تتقاربان في المعنى نحو إن قرأ وعدا علينا إنا كنا غافلين مكان فاعلين ونحوه مما لو اعتقده يكفر تفسد عند عامة مشايخنا وهو الصحيح من مذهب أبي يوسف - رحمه الله تعالى -. هكذا في الخلاصة."
(كتاب الصلاة، الباب الرابع، الفصل الخامس في زلة القارئ، 80/1، ط: دارالفکر)
فتاوی قاضی خان میں ہے:
وإن غير المعنى تغيراً فاحشاً بأن قرأ وعصى آدم ربه فغوى بنصب ميم آدم ورفع باء ربه أو قرأ البارى المصوّر بنصب الواو أو قرأ إنما يخشى الله من عباده العلماء برفع الله ونصب العلماء أو قرأ نحن خلقنا بفتح القاف وجعلنا بفتح اللام وأنزلنا بفتح اللام ومن يغفر الذنوب إلا الله بنصب الله وما يعلم تأويله إلا الله بفتح الهاء ولا يغرنكم بالله الغرور بفتح الغين وكسر الراء، وإن الله برىء من المشركين ورسوله بكسر لام الرسولوأنت خير المنزلين بفتح الزاء وما أشبه ذلك مما لو تعمد به يكفر إذا قرأ خطأ فسدت صلاته في قول المتقدمين....وأما إذا أخطأ بذكر حرف مكان حرف في كلمة ولم يتغير المعنى بأن قرأ إن المسلمون إن الظالمون وما أشبه ذلك لم تفسد صلاته لأنه لا يغير المعنى لأنه يفهم بالخطا ما يفهم بالصواب، وكذا لو قرأ أياباً مكان أواباً لم تفسد صلاته . كالطاء وعن أبي يوسف رحمه الله تعالى تفسد صلاته لأنه ليس في القرآن، وإن ذكر حرفاً مكان حرف وغير المعنى فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة مع الصاد فقرأ الطالحات مكان الصالحات تفسد صلاته عند الكل."
(کتاب الصلاۃ، فصل فی قراءۃ القرآن خطأ وفی الأحکام المتعلقة بالقراءة، ج: 1، ص: 128۔129، ط: دار الکتب العلمیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"والقاعدة عند المتقدمين أن ما غير المعنى تغييرا يكون اعتقاده كفرا يفسد في جميع ذلك، سواء كان في القرآن أو لا إلا ما كان من تبديل الجمل مفصولا بوقف تام وإن لم يكن التغيير كذلك، فإن لم يكن مثله في القرآن والمعنى بعيد متغير تغيرا فاحشا يفسد أيضا كهذا الغبار مكان هذا الغراب."
(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 631/1، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ذكر في الفوائد لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش ثم رجع وقرأ صحيحا قال عندي صلاته جائزة وكذلك الإعراب ولو قرأ النصب مكان الرفع والرفع مكان النصب أو الخفض مكان الرفع أو النصب لا تفسد صلاته."
(كتاب الصلاة، الباب الرابع، الفصل الخامس في زلة القارئ، 82/1، ط: دارالفکر)
حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:
"وفي المضمرات قرأ في الصلاة بخطأ فاحش، ثم أعاد وقرأ صحيحا، فصلاته جائزة."
(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد فی الصلاۃ، 348/2، ط: دارالکتب العلمیة)
امداد الفتاوی میں ہے:
سوال :اگر کے أَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُمُّه هَا وِيَه خوانده في الفور يخش نموده نماز ادا کر د نمازش صحیح باشد یا نه ؟
الجواب- في العالمگيرية ذكر في الفوائد لو قرأ في الصلوة بخطاء فاحش ثم رجع و قرأ صحيحاً قال عندى صلوته جائزة وكذلك الإعراب قلت و كذلك سمعت شیخی مولانا محمد یعقوب رحمه الله تعالى - پس بناء علیہ نماز ایس کس صحیح باشد .
(کتاب الصلاۃ، باب القراءۃ، 218/1، ط: مکتبۃ دارالعلوم)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602101031
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن