ہمارے علاقے بلوچستان میں لاکھوں ایکڑ زمینوں پر افیون کی کاشت کی گئی ہے، جس کا استعمال دوامیں ہم نے نہیں دیکھا ہے، بلکہ یہ عام بازار میں بیچی جاتی ہے، نہ کوئی سرکاری اجازت ہوتی ہے اور نہ کسی کمپنی کے ساتھ کوئی کنٹریکٹ (معاہدہ) ہے، باقی ساری کی ساری منشیات میں استعمال ہوتی ہے۔اہل علاقہ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ اس چیز کے جائز ہونے کیلئے پیش کرتے ہیں کہ یہ خود حلال ہے اور اس کی کمائی حلال ہے ۔
لہذا آنجناب سے گزارش ہے کہ متعلقہ مسئلہ واضح کر دیں آیا یہ چیز اگر منشیات میں استعمال ہوتی ہوتو اس کی کاشت کاری، خرید وفروخت اور کمائی کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ شریعت کا ایک عمومی ضابطہ ہے کہ اگرکوئی چیز فی نفسہٖ ناجائز نہ ہولیکن اُس کا جائز و ناجائز دونوں کاموں میں استعمال ہوسکتا ہو تو اُس کا جائز مقاصد کے تحت بقدرِ ضرورت تیار کرنا اور استعمال کرنا جائز ہے، بصورتِ دیگر یعنی جہاں ناجائز استعمال ہورہا ہو یا ناجائز استعمال کا ظنِ غالب ہو تو ایسی جگہ اور صورت میں اُس چیز کی تیاری و خریدوفروخت کی شرعاً عمومی اجازت نہیں دی جاسکتی، لہذا بصورتِ مسئولہ افیون، بھنگ اور حشیش کو بطورِ منشیات استعمال کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، سائل کےمذکورہ علاقے میں اور جہاں جہاں افیون منشیات کی غرض سے کاشت کی جاتی ہے، اور منشیات کے لیے بازاروں میں خریدی اور بیچی جاتی ہے، یہ شریعت کی رو سے ناجائز ہے، اِس کے کاروبار میں حاصل ہونے والی آمدنی مکروہ ہے۔
باقی بھنگ، افیون اور حشیش کا جس طرح ناجائز اور غلط استعمال ہوتا ہے، اس طرح اس کا ادویات وغیرہ میں جائز استعمال بھی ہوتا ہے، اور اسی ضرورت کی بناء پر فقہائے کرام نے اس کی کاشت اور فروخت کرنے کی اجازت دی ہے،اور اُسی بنیاد پراہل فتاویٰ (بشمول دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن) کی جانب سے اس کی کاشت کاری اور خریدوفروخت کی گنجائش پر مشتمل فتاویٰ جات جاری ہوئے ہیں۔
لیکنآج کل معاشرے میں عوام الناس افیون و بھنگ کا عمومی استعمال منشیات کے طور پر کررہی ہے، دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ بطورِ منشیات ہی متعارف ہے، اور لاکھوں لوگ اس کے عادی بن کر اپنی صحت اور زندگی کو داؤ پر لگاچکے ہیں، دواؤں میں اس کے استعمال کی ضرورت بھی اپنی جگہ، جب کہ اس کا متبادل حل موجود ہے کہ اس کے لیے حکومت اپنی نگرانی میں بقدرِ ضرورت اس کی کاشت کر کے دوا ساز کمپنیوں کو فراہم کرسکتی ہے، جب کہ عوام الناس کو اس بات کا قطعاً علم نہیں ہوتا کہ کس قدر کاشت کی ضرورت دوا کے لیے ہوگی، بلکہ اس کا تعین وتخمینہ ریاست ہی لگاسکتی ہے، اس لیے ایسی صورت میں شریعت کے عمومی مزاج ”دفع مضرت” اور ”سدالذرائع“ کو مدِ نطر رکھ کر بھنگ، افیون اور حشیش کی کاشت کرنے اور اس کی فروخت کی عمومی اجازت نہ دینے کی رائے زیادہ محتاط ہے۔بالخصوص جب کہ حکومت کی طرف سے دواؤں کے لیے ضرورت ہونے کے باوجود اس کی عمومی کاشت پر پابندی بھی ہے، تو ایسی صورت میں موجودہ دور میں قانونی اجازت کے بغیر اس کی کاشت اور اس کی خرید و فروخت سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔
مذکورہ بالا عوامل کےپیشِ نظرخلاصہ کلام یہی ہے کہ سائل کا علاقہ ہو یا کوئی دوسری جگہ جہاں بھی قانونی اجازت کے بغیر یا منشیات کی غرض سے افیون کی کاشت کاری اور خریدوفروخت کی جائے ، یہ اصولاً غیرقانونی و غیرشرعی ہے، اِس حوالے سے ”دارالافتاءجامعہ بنوری ٹاؤن“ کے کسی سابقہ فتویٰ کو بنیاد بنانااور منشیات کے لیے افیون کی کاشت کاری و خرید وفروخت کو جواز فراہم کرنا جائز نہیں ہوگا۔
کفایت المفتی میں ہے:
”افیون ، چرس ،بھنگ یہ تمام چیزیں پاک ہیں اور ان کا دوا میں خارجی استعمال جائزہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائزہے۔“
(کتاب الحظروالاباحۃ، ج:9، ص:129، ط:دارالاشاعت)
فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:
”سوال : افیون کا ٹھیکہ لینا اور فروخت کرنا درست ہے یا نہیں؟
الجواب : افیون کی بیع و شراء مسلمان کو نا جائز ہے۔قال الله تعالى: {وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِيِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} الآية ( سوره مائده، آیت:۲)“
(خریدوفروخت کابیان، ج:14، ص:363، ط:دار الاشاعت)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
”افیون کی تجارت مکروہ تحریمی ہے۔“
(باب البیع الباطل والفاسدوالمکروہ، ج:16، ص:124، ط:فاروقیہ)
جامعہ کے سابقہ فتاویٰ ( جو کہ حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ، حضرت مفتی عبد السلام رحمہ اللہ اور حضرت مفتی رضاء الحق صاحب کی تصدیق سے ایک عربی سوال کے جواب میں جاری شدہ ہیں ) میں ہے:
" ففي المسئلة المسئولة عنھا یجوز زرع الخشخاش ویجوز إتخاذ الأفیون منه وبیعھا وتجارتھا منه، لأنه یستعمل في الأدویة لکن إتخاذ السفوف للتی تسمیٰ بھروئن لایجوز بیعه، لأن فیه مضرۃ وضیاع الجسم الإنسانی، فالحاصل أن الأفیون یجوز بیعه ولکن یکرہ علی ید من یتخذ منه الھروئن، وإتخاذ الھروئن وبیعه وتجارته لایجوز، کما ذکرہ في الدرالمختار: ( وصح بیع غیر الخمر ) مما مر مفادہ صحة بیع الحشیشة والأفیون. وفي رد المحتار: ثم إن البیع وإن صح لکنه یکرہ کما في الغایة. فقط."
(رجسٹر نمبر:87، ص:150, سن 1406ھ )
جامعہ کے سابق فتاویٰ ( جو کہ مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری رحمہ اللہ کی تصدیق سے جاری شدہ ہے ) میں ہے:
” واضح رہے کہ افیون کی کاشت فی نفسہ جائز ہے، لیکن اگر حکومت نے مصالحِ عامہ کے پیش نظر اس کی کاشت پر پابندی لگارکھی ہو تو پھر پابندی کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوگا۔“
( رجسٹر نمبر:437، سن 1426ھ موافق 2006ء )
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.
(قوله :ومفادة إلخ) أي مفاد التقييد بغير الخمر، ولا شك في ذلك لأنهما دون الخمر وليسا فوق الأشربة المحرمة، فصحة بيعها يفيد صحة بيعهما فافهم."
(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الأشربة، ج:6، ص:454، ط:سعيد)
وفیه أیضاً:
"وقال محمد ما أسكر كثيره فقليله حرام، وهو نجس أيضاولوم سكر منها المختار في زماننا أنه يحد. زاد في الملتقى: وقوع طلاق من سكر منها تابع للحرمة، والكل حرام عند محمد وبه يفتى، والخلاف إنما هو عند قصد التقوي. أما عند قصد التلهي فحرام إجماعا اهـ، وتمامه فيما علقته عليه. زاد في القهستاني: أن لبن الإبل إذا اشتد لم يحل عند محمد خلافا لهما، والسكر منه حرام بلا خلاف، والحد والطلاق على الخلاف، وكذا لبن الرماك: أي الفرسة إذا اشتد لم يحل، وصحح في الهداية حله. وفي الخزانة أنه يكره تحريما عند عامة المشايخ على قوله.
(قوله وقال محمد إلخ) أقول: الظاهر أن هذا خاص بالأشربة المائعة دون الجامد كالبنج والأفيون، فلا يحرم قليلها بل كثيرها المسكر، وبه صرح ابن حجر في التحفة وغيره، وهو مفهوم من كلام أئمتنا لأنهم عدوها من الأدوية المباحة وإن حرم السكر منها بالاتفاق كما نذكره."
(كتاب الأشربة، ج:6، ص:455، ط:سعید)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"زراعة الحشيش والخشخاش والقات وتصنيع الأفيون والكوكايين والهروين:
إن كل ما يؤدي إلى الحرام فهو حرام، وكل ما يعين على المعصية، فهو معصية، فتكون زراعة الحشيش وغيرها واستخراج المواد المخدرة والعناية بها حفظا وتعليبا وتهريبا ونقلا من مكان إلى آخر أمرا حراما في شرع الله ودينه، للأسباب التالية:
1 - إن زراعة ما يؤدي إلى الحرام يعد رضا صريحا من الزراع بتعاطي الناس له، واتجارهم فيه، والرضا بالمنكر أو المعصية يعد منكرا وعصيانا.
2 - تبين مما ذكر أن كل مافيه إعانة على المعصية يعد معصية، كما أن الزراعة لوسائل المخدرات معصية.
3 - روى أبو داود في سننه عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن من حبس العنب أيام القطاف حتى يبيعه ممن يتخذه خمرا، فقد تقحم النار». وهذا
دليل صريح على حرمة زراعة الحشيش والقات وكل ما يؤدي لاستخراج عصارة الأفيون والهروين والكوكايين وغير ذلك.
4 - روى أصحاب السنن الأربعة والإمام أحمد عن ابن مسعود: أن النبي صلى الله عليه وسلم «لعن آكل الربا ومؤكله وشاهديه وكاتبه». ولفظ النسائي: «آكل الربا ومؤكله وشاهديه وكاتبه إذا علموا ذلك، ملعونون على لسان محمد صلى الله عليه وسلم يوم القيامة» فهؤلاء أربعة لعنوا في أكل الربا.
وروى أبو داود والحاكم عن ابن عمر: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لعن الله الخمر، وشاربها، وساقيها، وبائعها، ومبتاعها، وعاصرها، ومعتصرها، وحاملها، والمحمولة إليه، وآكل ثمنها» فهؤلاء عشرة لعنوا في الخمر وتناولها.
والمتبادر إلى الذهن ألا يكون ملعونا إلا آكل الربا وشارب الخمر دون من ذكر معهما، ولكن الشرع حرم فعل ثلاثة آخرين في الربا، وتسعة آخرين في الخمر؛ لأنهم كانوا سببا في المعصية، وعونا على اقتراف الحرام، فيكون المتسبب والمعين أو المساعد، له حكم الفاعل تماما.
وبناء عليه يكون تاجر المخدرات والمهرب والناقل وكل من ساعد في تعاطيها آثما إثما عظيما ومرتكبا حراما ومنكرا شديدا.
(المبحث السادس ـ مخاطر المخدرات وأحكامها في الإسلام:، ج:7، ص:5517، ط:دار الفکر)
دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"إذا تعارضت مفسدة ومصلحة يقدم دفع المفسدة على جلب المصلحة، فإذا أراد شخص مباشرة عمل ينتج منفعة له، ولكنه من الجهة الأخرى يستلزم ضررا مساويا لتلك المنفعة أو أكبر منها يلحق بالآخرين، فيجب أن يقلع عن إجراء ذلك العمل درءا للمفسدة المقدم دفعها على جلب المنفعة؛ لأن الشرع اعتنى بالمنهيات أكثر من اعتنائه بالمأمور بها. مثال: يمنع المالك من التصرف في ملكه فيما إذا كان تصرفه يورث الجار ضررا فاحشا."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادة 30، ج:1، ص:41، دار الجیل)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"طاعة الإمام في غير معصية واجبة فلو أمر بصوم وجب اهـ."
(كتاب القضاء، ج:5، ص:422، ط:سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"فإذا ثبت كراهة لبسها للتختم ثبت كراهة بيعها وصيغها لما فيه من الإعانة على ما لا يجوز وكل ما أدى إلى ما لا يجوز لا يجوز وتمامه في شرح الوهبانية
(قوله فإذا ثبت إلخ) نقله ابن الشحنة عن ابن وهبان، ثم قال: والظاهر أنه لم يقف على التصريح بكراهة بيعها، وقد وقفت عليه في القنية قال ويكره بيع خاتم الحديد والصفر."
(کتاب الحظروالإباحة، فصل في اللبس، 360/6، ط:سعید)
فقط والله تعالى اعلم
فتوی نمبر : 144612100404
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن