بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منکرین حیات الانبیاء علیہم الصلاۃ و السلام کا حکم


سوال

 مماتیوں کے بارے میں جو ہمارے علماء دیوبندکا ان مماتیوں کے بارے میں  فتوی موجود ہے، اگر اس حالات میں جو ان کاعقیدہ ہے مرجائیں ،تو جو سزا یہود اور دوسرے مذاہب کے لوگوں  کو دی جاتی ہے، وہی سزا ان کو بھی ملےگی یا جو گناہ گار مسلمان ہے،ان کو جو سزا ملتی ہے   وہ سزا ملے گی ؟

جواب

رسول اللہ ﷺ اور تمام اَنبیاءِ کرام علیہم السلام  کے متعلق اَکابرِ  دیوبند کا مسلک یہ ہے کہ وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ  ہیں اور  اُن کے اَبدانِ  مقدسہ بعینہا محفوظ ہیں ،جسدِ  عنصری کے  ساتھ  عالمِ  برزخ میں ان کو حیات حاصل ہے، جو  حیات دنیوی کے مماثل  ہے ، بلکہ بعض اعتبار سے اس سے بھی اعلیٰ ہے،صرف یہ فرق ہے کہ اَحکامِ دنیویہ کے مکلف نہیں ،لیکن وہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور روضۂ  اقدس میں جو درود پڑھاجاتا ہے اس کو بلاواسطہ سنتے  ہیں ۔

یہ عقیدہ چودہ صدیوں سے امت میں متوارث چلا آرہا ہے، جو شخص اس عقیدہ  کے خلاف کرے وہ مبتدع اور گم راہ  ہے، اہلِ سنت و الجماعت سے خارج ہے ،لیکن وہ کافر نہیں ہے کہ آخرت میں اس کا انجام یہود  و  نصاری کے مثل  قرار  دیا  جائے۔

المہند علی المفند میں ہے:

"عندنا و عند مشائخنا حضرة الرسالة صلي الله عليه وسلم حي في قبره الشريف و حيوٰته صلي الله عليه وسلم دنيوية من غير تكليف، و هي مخصوصة به صلي الله عليه وسلم و بجميع الأنبياء صلوات الله عليهم، لا برزخية كما هي حاصلة لسائر المؤمنين، بل لجميع الناس، كما نص عليه العلامة السيوطي في رسالة: "إنباء الأذكياء بحيوٰة الأنبياء" حيث قال: قال الشيخ تقي الدين السبكي: حيوٰة الأنبياء و الشهداء في القبر كحيوٰتهم في الدنيا، و يشهد له صلوٰة موسی عليه السلام في قبره؛ فإن الصلوٰة تستدعي جسداً حياً... الخ (ص: ادارة اسلاميات)

جواہر الفتاوی میں ہے:

"حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم،  بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی حیات کا عقیدہ نصوصِ شرعیہ سے اور  اجماعِ امت سے ثابت ہے، باتفاق علماءِ اہل السنۃ والجماعۃ خاص کر اکابرینِ علماءِ دیوبند، اس جماعتِ دیوبندیہ کے لیے معیار قرار دیتے ہیں، اس کے خلاف منکرینِ  حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم و الانبیاء والشہداء کو  مبتدع  اور  اہلِ سنت و الجماعت سے خارج قرار دیتے ہیں۔"

  (جواہر الفتاوی جدید ، ١/٤٣٢، ط: اسلامی کتب خانہ)

حضرت مولانا سید مہدی حسن رحمہ اللہ اپنے رسالہ " قہر حق بر صاحب ندائے حق"  میں تحریر فرماتے ہیں:

"جو امام یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کی حیات بعد الممات محض روحانی ہے اور جسم اگرچہ محفوظ ہے،  مگر حیات سے بے بہرہ  ہے اور پھر اس عقیدہ کی تبلیغ کرتا ہے اور ترویج چاہتا ہے، بالیقین اس عقیدہ والا امام  مبتدع فی العقیدہ و العمل ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہِ تحریمی  واجب الاعادہ ہے۔" 

(ص: ٢٨٨، ط: امدادیہ)

نوٹ: مبتدع کی اقتدا میں نماز کا حکم یہ ہے کہ اگر درست عقیدے والے متقی پرہیز گار امام  کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا موقع ہو تو بدعتی کی اقتدا میں نماز ادا نہ کی جائے، اگر مجبوری ہو تو بدعتی کی اقتدا میں نماز ادا کرلی جائے، اور بعد میں اس نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے، کیوں کہ امام کے فاسق ہونے کی وجہ سے جو کراہت لازم آتی ہے وہ داخلِ نماز (نماز کے اندرونی اعمال) میں نہیں ہوتی، بلکہ خارجِ نماز سبب (نماز سے باہر، یعنی امام میں امامت کی اہلیت کی کمی)  کی وجہ سے ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں