بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منکر حدیث بہن اور بہنوئی سے تعلقات رکھنا


سوال

میری بڑی بہن کا ایک عرصہ دراز سے عقیدہ صحیح نہیں تھا، جس کی وجہ سے ہمارے ان سے تعلقات بھی منقطع تھے، ایک مرتبہ ان سے اچانک اکتوبر2022میں ملاقات ہوئی، اور ان سے ان کے عقیدہ کے بارے میں پوچھا کہ کیا آپ حدیثوں کو مانتی ہیں تو انہوں نے خاموشی اختیار کی، اس پر میں نے ان سے کہا کہ انکار حدیث اسلام سے خارج کردیتی ہے، پھر دوسری ملاقات ہمارے ایک عزیز کے گھر پر ان عزیز کی محنت سے ہوئی، جس میں ٹھنڈا ماحول تھا تو میری بہن نے مجھ سے کہا کہ جس طرح تم بولو گے میں ویسے کرنے کے لیے تیار ہوں۔ میں نے ان کو نماز اور حدیث کو ماننے کی دعوت دی، جس پر ان کو مختلف مواقع پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا گیا۔ میرے گھر میں مستورات کی تبلیغی ہفتہ واری تعلیم بھی ہوتی ہے، جس میں انہوں نے دو تین مرتبہ شرکت بھی کی ہے۔ بظاہر اس دوران ان کے کوئی معاملات دین کے اعتبار سے مشکوک نظر نہیں آئے، البتہ ان کے شوہر کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف قرآن ہے، حدیث تو تین سو سال کے بعد لکھی گئی ہے۔ نماز کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ایک پہچان ہے،جیسے ہندو پنڈت مندر میں جاتا ہے، عیسائی گرجا گھر میں جاتا ہے، اسی طرح مسلمان مسجد میں جاتے ہیں، جو مسلمان نماز پڑھے ان کو تم مسلمان سمجھتے ہو اور جو نہ پڑھے اس کو کافر سمجھتے ہو۔ اسی طرح مختلف باتیں کرتے ہیں۔ ان کے بچے تو وقتا فوقتا نماز پڑھتے ہیں، جبکہ لوگوں نے ہمارے بہنوئی کو عید کے موقع پر ہی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس ساری تفصیل کے بعد آپ سے کچھ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

1۔ ہم نے ابھی تک بہن کے عقیدہ کے مشتبہ ہونے کی وجہ سے والدین کی وراثت میں سے ان کو ان کا حصہ نہیں دیا تھا، اب آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا ہماری اس بہن کا حصہ ہمارے والدین کی وراثت میں بنتا ہے؟

2۔  ان سے ہمیں تعلقات کس طرح رکھنے چاہئیں؟

3۔ ہماری بہن و بہنوئی کا آپس میں نکاح برقرار ہے یا نہیں؟

4۔  ہم چھ بھائیوں میں سے پانچ بھائی بہن سے مل چکے ہیں، لیکن بڑے بھائی کہہ رہے ہیں کہ جب تک یہ اور ان کے شوہر اپنے عقیدہ کا زبان سے صحیح اقرار نہیں کریں گے، اس وقت تک ان سے تعلقات استوار نہیں کروں گا، کیا بڑے بھائی کا یہ موقف صحیح ہے؟

جواب

اللہ رب العزت نے انسان کی ہدایت کے لیے قرآن مجید  نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل فرما کر   رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کو قرآن مجید سمجھانے کا پابند فرمایا، پس جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم  نے  تشریح فرمائی،خواہ اپنے قول سے، یا اپنے عمل سے ، وہ تمام تشریحات حدیث  کے نام سے محفوظ ہوتی گئی، جسے اللہ رب العزت نے قرآن  میں ہی وحی کا درجہ عطا فرمایا۔

ارشاد باری تعالٰی  ہے:

"وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ " ( النحل: ٤٤)

ترجمہ:" ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کر دو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں۔"

 ارشاد ربانی ہے:

"وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ () إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ()." ( النجم: ٣ - ٤)

ترجمہ:" اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے۔ یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔"

ان آیات مبارکہ  سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث  لازم ملزوم ہیں، پس قرآن مجید کو اپنے لیے کافی اور احادیث سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھنا، ہوا پرستی کے سوا کچھ نہیں، بلکہ قرآنی حکم سے روگردانی کرنا، اور   من چاہی تشریحات  کے لیے راستہ ہموار کرکے دین حنیف میں تحریف کرنا ہے، اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی تشریحات کے بغیر قرآن مجید کے اجمال کو سمجھنا ناممکن ہے، یہاں تک کہ نماز، روزہ حج ، زکوٰة   ، اراکان اسلام جن کی ادائیگی  کا حکم قرآن مجید میں دیا گیا ہے، ان کی ادائیگی  کا طریقہ اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں بیان فرمانے کے بجائے، اس کے بیان کی ذمہ داری خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے کاندھوں  پر رکھی، پس حدیث  رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے بغیر ان اعمال کی ادائیگی  نا ممکن ہے،  لہذا جو افراد قرآن کو اپنے لیے کافی اور احادیث  سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھتے ہیں وہ درحقیقت قرآنی احکامات  سے نابلد ہیں، جس کے نتیجہ میں ایسے افراد بسا اوقات  متعدد قطعی احکامات  کے انکار  کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔

شاہ عبد العزیز  محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے منکرین حدیث کا حکم تفصیل سے بیان فرمایا ہے:

"سوال: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو حدیث  سے انکار کرے؟

جواب: اس مسئلہ میں چند احتمالات ہیں:

1۔ اول یہ کہ تمام حدیثوں کا انکار کرے یہ بعینہ کفر ہے۔

2۔ دوسرے یہ کہ حدیثِ متواتر کا انکار کرے اور اس میں کوئی تاویل نہ  کرے، یہ بھی کفر ہے۔

3۔ تیسرے یہ کہ  صحیح احادیث میں سے  'آحاد ' کا انکار کرے اور یہ انکار خواہشِ نفسانی سے ہو، اس وجہ سے کہ وہ حدیث طبیعت کے موافق نہ ہو یا دنیوی مصلحت کے خلاف ہو ، یہ گناہِ کبیرہ ہے، ایسا  منکر بدعتی ہے، یعنی بدعتِ سیئہ کرتا ہے۔

4۔ چوتھے یہ کہ اس وجہ سے کسی حدیث سے انکار کرے کہ اس کے خلاف کوئی دوسری قوی حدیث ہو یا یہ کہ ناقل کے قول پر اس کو اعتماد نہ ہو ۔ اس وجہ سے وہ شخص یہ سمجھتا ہو کہ فی الواقع یہ حدیث نہیں ہے اور اس خیال سے اس کو اس حدیث سے انکار ہو اور یہ انکار خواہش نفسانی سے نہ ہو اور نہ کسی دنیوی غرض سے ہو اور اپنے کلام کی سرسبزی بھی منظور نہ ہو۔ اور نہ کوئی دوسری عرض فاسد مقصود ہو۔ بلکہ اس وجہ سے اس کو انکار ہو کہ وہ حدیث اس کے گمان میں علم اصول حدیث کے قواعد کے خلاف ہو یا کسی آیت قرآنی کے خلاف ہو۔ یا ایسی ہی کوئی اور مناسب وجہ انکار کی اس کے نزدیک ہو ۔ تو ایسے انکار میں کچھ حرج نہیں ۔"

(فتاوی عزیزی  از شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، تحت عنوان:  مسائلِ فقہ، ص: ٤٤١ - ٤٤٢، ط: سعید) 

1۔ صورت مسئولہ میں اگر سائل کی مذکورہ بہن تمام احادیث کی  یا احادیث متواتر ہ کی انکاری نہیں رہی ہے، تو اس صورت میں وہ دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں پائے گی،  لہذا اسے والد کی وراثت سے محروم رکھنے کی شرعًا اجازت نہ ہوگی۔

2۔ دائرہ اسلام سے خارج نہ ہونے کی صورت میں ان سے تعلقات رکھنا جائز ہوگا، بصورتِ  دیگر جب تک وہ انکار حدیث کے عقیدہ سے توبہ تائب نہ ہوجائیں، تعلقات رکھنے کی شرعًا اجازت نہ ہوگی۔

3۔ بہنوئی اگر تمام احادیث کے یا احادیث متواترہ کے منکر نہیں ہیں، تو سائل کی بہن کا نکاح برقرار ہوگا، بصورتِ  دیگر نکاح برقرار نہیں ہوگا۔

4۔تعلقات استوار کرنے سے قبل  بہن اور بہنوئی سے احادیث کے حوالے سے ان کے عقیدہ کے بارے میں دریافت کر لیا جائے۔

مزید دیکھیے:

منکرینِ حدیث کا حکم

منکرینِ حدیث کا حکم

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502101821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں