بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عیسٰی علیہ السلام کی حیات اور ان کے دنیا میں واپسی کے منکر کا حکم


سوال

حضرت عیسٰی علیہ السلام کی حیات اور ان کے دنیا میں واپسی کے منکر کا کیا حکم ہے؟ اسے مسلمان سمجھا جائے گا یا نہیں؟

جواب

حضرت عیسیٰ علیہ السلام حیات ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں یہودیوں سے محفوظ کرکے یقینی طور پر اپنے پاس اٹھا لیا، اور آخر زمانے میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بحفاظت آسمانوں پر اٹھایا جانا  اور ان کی حیات اور دوبارہ دنیا میں آنا قرآنِ مجید اور صحیح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔

﴿ وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ ؕ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًا ﴿۱۵۷﴾ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ ؕ وَ کَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ﴿۱۵۸﴾ وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَکُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا ﴿۱۵۹

ترجمہ :  اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول (علیہ السلام) تھا اللہ کا، اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا، لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے، اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں، کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں، اور اس کو قتل نہیں کیا  بے شک،  بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف اور اللہ ہے زبردست حکمت والا، اور جتنے فرقے ہیں اہلِ کتاب کے سو عیسیٰ (علیہ السلام) پر یقین لاویں گے اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا ان پر گواہ۔

مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ ’’معارف القرآن  ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’سورہ آل عمران کی آیت ﴿یٰعیسی اني متوفیك ورافعك إلي ...﴾ الآیة[٣: ٥٥] میں حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن یہود کے عزائم کو ناکام بنانے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی دست رس  سے بچانے کے سلسلہ میں پانچ وعدے فرمائے تھے جن کی تفصیل اور مکمل تشریح و تفسیر سورۃ آل عمران کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے، ان وعدوں میں ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ یہود کو آپ کے قتل پر قدرت نہیں دی جائے گی، بلکہ آپ کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف اٹھا لیں گے، اس آیت میں یہود کی شرارتوں اور جھوٹے دعوؤں کے بیان میں اس وعدۂ الٰہیہ کی تکمیل اور یہود کے مغالطہ کا مفصل بیان اور یہود کے اس قول کی مکمل تردید ہے کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا ہے۔

ان آیات میں واضح کیا گیا کہ ﴿وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ﴾یعنی ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو نہ قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا، بلکہ صورتِ حال یہ پیش آئی کہ معاملہ ان کے لیے مشتبہ کردیا گیا۔آخر زمانے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کا عقیدہ قطعی اور اجماعی ہے، جس کا منکر مسلمان نہیں ہے ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200505

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں