اگر کسی مسلمان ملک میں ظلم ،زنا کاری ،رشوت ،چوری ،مطلب ہر قسم کی بد کاری عام ہو تو وہاں کے اہل علم کی کیا مسئولیت بنتی ہے؟
اللہ تعالی نے ہر انسا ن کو اس کی وسعت کے بقدر مکلف بنایا ہے، اور وسعت سے زیادہ کا نہ وہ مکلف ہے اور نہ ہی آخرت میں اس پر اس کی گرفت ومواخذہ ہوگا۔معاشرتی برائیوں (ظلم ، زنا، چوری وغیرہ)کی روک تھام اور ان کا خاتمہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، جس میں حکام ،علماء اور عوام کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔حکام یعنی صاحب اقتدار طبقے کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کے ذریعے ان برائیوں کا سدباب کریں،انہیں طاقت کے ذریعے ان برائیوں کے روکناچاہیے، یہ ان کا فریضہ ہے۔اہل علم کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ وعظ و تبلیغ، یعنی اپنی زبان کے ذریعے ان برائیوں کی شناعت و قباحت بیان کریں اور لوگوں کو ان برائیوں سے روکنے کی کوشش کریں۔اگر اہلِ علم اپنے مواعظ و بیانات میں ان برائیوں کی قباحت بیان کرتے ہیں اور لوگوں کو ان سے روکنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تو وہ اپنی مسئولیت سے ان شاء اللہ عنداللہ بری ہوں گے۔
چناں چہ مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے:
’’ عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان " . رواه مسلم ‘‘۔
(مشکوۃ المصابیح، باب الامر بالمعروف، ص:۴۳۶،ط:قدیمی)
’’ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم میں سے جو شخص کسی خلافِ شرع امر کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اس چیز کو اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالے اور اگر وہ( خلافِ شرع امر کے مرتکب کے زیادہ قوی ہونے کی وجہ سے یا بزورِ طاقت روکنا خلافِ مصلحلت ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کے ذریعہ )اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کو دل سے برا جانے اور یہ (آخری درجہ) ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے‘‘۔
(ترجمہ از:مظاہر حق،جلد چہارم ، ص:۶۰۴،ط:دارالاشاعت)
علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ برائیوں کے پھیلنے سے روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی جو ذمہ داری اہلِ ایمان پر عائد ہوتی ہے اس سے عہدہ برآ،ہونے کے تین درجے بیان کیے گئے ہیں: پہلا درجہ یہ ہے کہ ہر برائی کا سر طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے بشرطیکہ اس طرح کی طاقت میسر ہو اور اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو روکنے کا فریضہ زبان کے ذریعہ ادا کیا جائے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر زبان کے ذریعہ بھی کسی برائی کی مذمت کرنے اور اس کو ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر دل سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے۔ یعنی کسی خلافِ شرع امر کو دیکھ کر اسے دل سے برا جانے ... بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حدیث میں پہلے حکم (یعنی برائی کو ہاتھ کے ذریعہ مٹانے) کا تعلق ان اہلِ ایمان سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے طاقت و اقتدار سے نوازا ہے یعنی بادشاہ و حاکم وغیرہ، چنانچہ طاقت و اقتدار رکھنے والے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر و اقتدار میں سختی و شدت کے ساتھ برائیوں کی سرکوبی کریں اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں، دوسرے حکم (یعنی برائی کو زبانی مذمت اور تلقین و نصیحت کے ذریعہ ختم کرنے) تعلق علماء کی ذات سے ہے ۔ یعنی یہ اہلِ علم اور واعظین کا فریضہ ہے کہ وہ جن برائیوں کو دیکھیں اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کی مذمت کریں اور عوام کو تلقین و نصیحت کے ذریعہ ان برائیوں سے روکیں، اور تیسرے حکم (یعنی برائیوں اور ان کے مرتکبین کے خلاف دل میں نفرت کا جذبہ رکھنے کا تعلق عام مسلمانوں سے ہے ، چنانچہ عام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خلافِ شرع امور کو دیکھ کر محض اعراض و بے اعتنائی کا رویہ اختیار نہ کریں، بلکہ ان امور کو دل سے برا جانیں اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قلبی نفرت رکھیں...الخ‘‘۔
(مظاہر حق،جلد چہارم ، ص:۶۰۴،ط:دارالاشاعت)
مشکوۃ المصابیح میں ہے :
’’ وعن عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " ألا كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته فالإمام الذي على الناس راع وهو مسؤول عن رعيته والرجل راع على أهل بيته وهو مسؤول عن رعيته والمرأة راعية على بيت زوجها وولده وهي مسؤولة عنهم وعبد الرجل راع على مال سيده وهو مسؤول عنه ألا فكلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته ‘‘۔
(مشکوۃ المصابیح، کتاب الامارۃ والقضاء، ص:۳۲۰،ط:قدیمی)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :خبردار تم میں سے ہر شخص اپنی رعیت کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن ) تم سے ہر شخص کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا ، لہٰذا امام یعنی سربراہ مملکت وحکومت جو لوگوں کا نگہبان ہے اس کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، مرد جو اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس کو اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے ، اس کو ان کے حقوق کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی اور غلام مرد جو اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اس کو اس کے مال کے بارے میں جواب داہی کرنا ہوگی لہٰذا آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک تم میں سے ہر ایک شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا ۔
تفسیر قرطبی میں ہے:
’’قال العلماء: الامر بالمعروف باليد على الأمراء، وباللسان على العلماء، وبالقلب على الضعفاء، يعني عوام الناس.‘‘۔
(ج:۴،ص:۴۹،ط:دارالکتب ، القاہرہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100566
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن