بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نجات کے لیے ایمانِ مجمل کافی ہے یا ایمانِ مفصل ضروری ہے؟


سوال

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ کی کتاب (الافاضات الیومیۃ، جلد دوم، صفحہ نمبر: 91، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ، ملتان ) میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے دھوبی والا واقعہ لکھا ہے، جس میں وہ دھوبی اپنی قبر میں منکر نکیر کے ہر سوال کے جواب میں کہتا ہے کہ میں غوثِ اعظم کا دھوبی ہوں، اور اس وجہ سے اس کی مغفرت ہو جاتی ہے، کیا یہ واقعہ درست ہے ؟ اگر یہ واقعہ درست ہے تو مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جو  سوال اس دھوبی سے قبر میں ہوۓ وہ مولانا فضل الرحمان صاحب گنج مرادآبادیؒ ( جن سے مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ نے یہ حکایت سنی تھی )کو کیسے پتا چلا؟  اگر خواب وغیرہ کی وجہ سے پتہ چلا تو کیا اس واقعہ کو درست مانا جائے گا؟ اور کیا قبر میں اس طرح کے جوابات سے مغفرت ہو جاتی ہے؟ جو کہ بظاہر عقل میں نہیں آتے ۔

جواب

واضح رہے کہ خواب حجتِ شرعیہ نہیں ہے،اگر صحیح سمجھ میں آجائے تو مبشِرات ہے اور اگر صحیح سمجھ میں نہ آئے تو کبھی کبھی گمراہی کاباعث بھی بن جاتا ہےاور عقیدہ خراب ہوجاتا ہے،نیز یہ کہ خواب کا تعلق اس دنیاسے نہیں ہے،بلکہ عالمِ مثال سے ہے جو کہ دنیا اور اخرت دونوں کے درمیان ایک عالَم کا نام ہے۔

باقی   سوال میں ذکرکردہ پورا قصہ ملفوظاتِ حکیم الامت (الافاضات الیومیۃ،جلد دوم،صفحہ ١٠٠،ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ،اشاعت ربیع الثانی ١٤٢٩ھ)  میں ملفوظ نمبر١٣٣کے تحت بعنوان ’’حضرت غوثِ اعظم رحمہ اللہ کا دھوبی‘‘ اس طرح موجود ہے  کہ:

’’ایک مولوی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا آپ تو اسی پر تعجب کر رہے ہیں ،  میں نے مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی سے خود اس سے زیادہ عجیب ایک حکایت سنی ہے جس میں توجیہ کی بھی ضرورت ہے اور کوئی بیان کرتا تو شاید یقین ہونا بھی مشکل ہوتا اور بہت ممکن تھا کہ میں سن کر رد کردیتاوہ یہ کہ ایک دھوبی کا انتقال ہوا،  جب دفن کر چکے تو منکر نکیر نے آ کر سوال کیا: ’’ من ربك ما دینك من هذا الرجل‘‘  وہ جواب میں کہتا ہے کہ مجھ کو کچھ خبر نہیں، میں تو حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ کا دھوبی ہوں اور فی الحقیقت یہ جواب اپنے ایمان کا اجمالی بیان تھا کہ میں ان کا ہم عقیدہ ہوں،  جو ان کا خدا،  وہ میرا خدا، جو ان کا دین، وہ میرا دین، اسی پر اس کی نجات ہو گئی،باقی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا ایمان بھی اجمال ہی تھا، محض تعبیر اجمالی تھی ۔‘‘

خواب کا تعلق عالمِ مثال سے ہونے کی وجہ سے چوں کہ ہر آدمی اسے سمجھ نہیں پاتا؛ اس لیے حضرت تھانویؒ نے خود سمجھادیاہے، جس سے بات واضح ہوگئی ہے اوراصولاً کوئی علمی اشکال باقی نہیں رہا؛ کیوں کہ یہ قصہ،  حضرت مولانافضل الرحمٰن گنج مراد آبادیؒ کو بذریعۂ کشف معلوم ہوا ہو یا منامی طورپر،یا پھر کرامت کے ذریعے معلوم ہوا ہو،بہر حال اسے حجتِ شرعیہ کا درجہ حاصل نہیں ہے۔

 رہی یہ بات کہ کیاقصہ میں ذکر کردہ جوابات دینے سےآدمی کی مغفرت ہوجاتی ہے؟اس کے جواب کی بنیاد دراصل اس امر پر ہے کہ نجات ومغفرت کےلیے ایمانِ مفصل ضروری ہےیا ایمانِ مجمل بھی کافی ہے؟ قصہ  سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات کےلیے ایمانِ مجمل بھی کافی ہے، ہر جگہ ایمانِ مفصّل کابیان ضروری نہیں ہے، مزید برآں، قصہ کے  اِس مدّعَا کی تائید چوں کہ دیگر نصوص سے بھی ہوجاتی ہے،لہٰذا یہ کوئی قابلِ اشکال  بات نہیں ۔

عون المعبودمیں ہے:

"عن معاوية بن الحكم السلمي، قال ... قلت: جارية لي كانت ترعى غنيمات قبل أحد والجوانية إذ اطلعت عليها اطلاعة فإذا الذئب قد ذهب بشاة منها، وأنا من بني آدم آسف كما يأسفون، لكني صككتها صكة فعظم ذاك علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: أفلا أعتقها؟ قال: ائتني بها، فجئت بها فقال: أين الله؟ قالت: في السماء، قال: من أنا؟ قالت: أنت رسول الله، قال: أعتقها فإنها مؤمنة.

"(‌أين ‌الله إلى قوله أعتقها فإنها مؤمنة) قال الخطابي في المعالم قوله أعتقها فإنها مؤمنة ولم يكن ظهر له من إيمانها أكثر من قولها حين سألها ‌أين ‌الله قالت في السماء وسألها من أنا فقالت رسول الله. فإن هذا سؤال عن أمارة الإيمان وسمة أهله وليس بسؤال عن أصل الإيمان وحقيقته ولو أن كافرا جاءنا يريد الانتقال من الكفر إلى دين الإسلام فوصف من الإيمان هذا القدر الذي تكلمت ‌الجارية لم يصر به مسلما حتى يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ويتبرأ من دينه الذي كان يعتقده وإنما هذا كرجل وامرأة يوجدان في بيت فيقال للرجل من هذه المرأة فيقول زوجتي فتصدقه المرأة فإنا نصدقهما ولا نكشف عن أمرهما ولا نطالبهما بشرائط عقد الزوجية حتى إذا جاءانا وهما أجنبيان يريدان ابتداء عقد النكاح بينهما فإنا نطالبهما حينئذ بشرائط عقد الزوجية من إحضار الولي والشهود وتسمية المهر كذلك الكافر إذا عرض عليه الإسلام لم يقتصر منه على أن يقول إني مسلم حتى يصف الإيمان بكماله وشرائطه فإذا جاءنا من نجهل حاله في الكفر والإيمان فقال إني مسلم قبلناه وكذلك إذا رأينا عليه أمارة المسلمين من هيئة وشارة ونحوهما حكمنا بإسلامه إلى أن يظهر لنا خلاف ذلك انتهى."

(ص:١٤٣،ج:٣،كتاب الصلاة،‌‌باب تشميت العاطس في الصلاة،ط:دار الكتب العلمية)

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"فقال لها: (أين الله؟) : أي: أين المعبود المستحق الموصوف بصفات الكمال؟ (قالت: في السماء) : أي: كما في الأرض ... قال: (من أنا؟) : قالت: أنت رسول الله قال: (أعتقها فإنها مؤمنة) : أي: بالله وبرسوله، وبما جاء من عندهما، وهذا يدل على قبول ‌الإيمان ‌الإجمالي ونفي التكليف الاستدلالي."

(ص:٢١٥٧،ج:٥،کتاب النکاح،باب في كون الرقبة في كفارة مؤمنة،ط:دار الفکر،بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں