بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

منہ کی بدبو کی وجہ سے جماعت ترک کرنا


سوال

اگر کسی شخص کے منہ کی بدبو کی وجہ سے دوسرے شخص کو نماز میں خلل ہوتا ہے تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص   کے منہ  سے  بدبو، کسی بدبو دار چیز کے کھانے کی وجہ  سے آتی ہے تو  اسے چاہیے  کہ وہ نماز سے پہلے اس طرح کی چیز نہ کھائے ، اور اگر کھالی تو اس پر لازم ہے کہ نماز سے پہلے  منہ کو  اچھی طرح صاف کرکے جماعت سے نماز میں شامل ہو، اگر اس کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے منہ کی بدبو آرہی ہے اور اس حالت میں یہ جماعت چھوڑتا ہے یا  جماعت سے نماز ادا کرتا ہے اور اس کی وجہ سے دوسرے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے تو یہ  گناہ گار ہوگا، اس لیے اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔

البتہ اگر کسی بیماری یا زخم وغیرہ  کی وجہ سے  یا قدرتی طور پر منہ سے بدبو آتی ہے یا کسی عذر کی وجہ سے نماز سے پہلے بدبو دار چیز کھائی ہو  اور اس کے منہ کی بدبو سے دیگر نمازیوں کو تکلیف ہو تو یہ شخص جماعت  چھوڑنے کے حق میں معذور کے حکم ہے، اس لیے یہ گھر پر نماز ادا کرے، اس صورت میں یہ گناہ گار نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 661):

وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب، وأكل نحو ثوم، ويمنع منه 

(قوله: وأكل نحو ثوم) أي كبصل ونحوه مما له رائحة كريهة للحديث الصحيح في النهي عن قربان آكل الثوم والبصل المسجد. قال الإمام العيني في شرحه على صحيح البخاري قلت: علة النهي أذى الملائكة وأذى المسلمين ولا يختص بمسجده  عليه الصلاة والسلام ، بل الكل سواء لرواية مساجدنا بالجمع، خلافا لمن شذ ويلحق بما نص عليه في الحديث كل ما له رائحة كريهة مأكولا أو غيره، وإنما خص الثوم هنا بالذكر وفي غيره أيضا بالبصل والكراث لكثرة أكلهم لها، وكذلك ألحق بعضهم بذلك من بفيه بخر أو به جرح له رائحة، وكذلك القصاب، والسماك، والمجذوم والأبرص أولى بالإلحاق. وقال سحنون لا أرى الجمعة عليهما. واحتج بالحديث وألحق بالحديث كل من آذى الناس بلسانه، وبه أفتى ابن عمر وهو أصل في نفي كل من يتأذى به. ولا يبعد أن يعذر المعذور بأكل ما له ريح كريهة، لما في صحيح ابن حبان عن «المغيرة بن شعبة قال انتهيت إلى رسول الله  صلى الله عليه وسلم  فوجد مني ريح الثوم فقال: من أكل الثوم، فأخذت يده فأدخلتها فوجد صدري معصوبا، فقال: إن لك عذرا» وفي رواية الطبراني في الأوسط «اشتكيت صدري فأكلته» وفيه: فلم يعنفه صلى الله عليه وسلم ، وقوله  صلى الله عليه وسلم : «وليقعد في بيته» صريح في أن أكل هذه الأشياء عذر في التخلف عن الجماعة. وأيضا هنا علتان: أذى المسلمين وأذى الملائكة؛ فبالنظر إلى الأولى يعذر في ترك الجماعة وحضور المسجد، وبالنظر إلى الثانية يعذر في ترك حضور المسجد ولو كان وحده اهـ ملخصا. أقول: كونه يعذر بذلك ينبغي تقييده بما إذا أكل ذلك بعذر أو أكل ناسيا قرب دخول وقت الصلاة لئلا يكون مباشرا لما يقطعه عن الجماعة بصنعه."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144206200609

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں