بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منہ بولی ماں کا لڑکے کو شہوت سے چومنے کا دعوی اور لڑکے کا اس عورت کی بیٹی سے نکاح


سوال

 ایک عورت نے کسی لڑکے کو منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا،  اب وہ لڑکا بڑا ہوکر اس کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے ، لیکن اب عورت کا دعوی یہ ہے کہ میں نے اس لڑکے کو چند بار شہوت کے ساتھ چوما ہے تو تم میری بیٹی کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتے اور لڑکے کا دعوی یہ ہے کہ میں نے تو شہوت کا کبھی سوچا نہیں اور نہ کوئی  لمس کیا ہے اس نیت سے تو اب یہاں پہ لڑکے کے لیے کیا حکم ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ حرمتِ  مصاہرت ثابت ہونے کے لیے جانبین سے شہوت کا ہونا ضروری نہیں ہے،  اگر  ایک طرف سے بھی  شہوت سے بلاحائل چھونا یا چومنا ثابت ہوجائے تو  حرمتِ  مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے۔ البتہ اس دعوی کی تصدیق ضروری ہے۔

لہذا  صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ عورت کے  شہوت سے بلاحائل  چومنے کے دعوی  کا اگر   اس کے منہ بولے بیٹے کو ظنِّ غالب ہے یا وہ اس کی  تصدیق کرتا ہے، یا اس پر شرعی گواہ موجود ہیں تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی ، اسی طرح اگر  مذکورہ عورت نے  اس کے ہونٹوں پر بوسہ لیا ہو    تو  بغیر دعوی کے بھی   حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، ا ور اس  صورت میں مذکورہ لڑکے کے لیے اپنی منہ بولی ماں کی بیٹی سے نکاح جائز نہیں ہوگا۔

لیکن اگر اس عورت کا شہوت کا  دعوی ثابت نہیں ہوتا اور اس نے  بوسہ بھی ہونٹ  وغیرہ پر نہیں  لیا  تو اس صورت میں اگر مذکورہ لڑکے کا اس منہ بولی  ماں کی بیٹی سے اور کوئی محرمیت کا رشتہ ہو تو اس کے لیے اس لڑکی سے نکاح جائز ہوگا۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"(والمعانقة كالتقبيل) وكذا القرص والعض بشهوة، ولو لأجنبية وتكفي الشهوة من أحدهما.

(قوله: وتكفي الشهوة من إحداهما) هذا إنما يظهر في المس أما في النظر فتعتبر الشهوة من الناظر، سواء وجدت من الآخر أم لا. اهـ.ط وهكذا بحث الخير الرملي أخذا من ذكرهم ذلك في بحث المس فقط قال: والفرق اشتراكهما في لذة المس كالمشتركين في لذة الجماع بخلاف النظر ۔(3 / 36)

وفيه أيضًا:

(وإن ادعت الشهوة) في تقبيله أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل فهو مصدق) لا هي (إلا أن يقوم إليها منتشرا) آلته (فيعانقها) لقرينة كذبه أو يأخذ ثديها (أو يركب معها) أو يمسها على الفرج أو يقبلها على الفم قاله الحدادي.

(قوله: وإن ادعت الشهوة في تقبيله) أي ادعت الزوجة أنه قبل أحد أصولها أو فروعها بشهوة أو أن أحد أصولها أو فروعها قبله بشهوة، فهو مصدر مضاف إلى فاعله أو مفعوله وكذا قوله: أو تقبيلها ابنه، فإن كانت إضافته إلى المفعول فابنه فاعل والأنسب لنظم الكلام إضافة الأول لفاعله والثاني لمفعوله ليكون فاعل يقوم الرجل أو ابنه كما أفاده ح (قوله: فهو مضاف) لأنه ينكر ثبوت الحرمة والقول للمنكر، وهذا ذكره في الذخيرة في المس لا في التقبيل كما فعل الشارح فإنه مخالف لما مشى عليه المصنف أو لا من أنه في التقبيل يفتى بالحرمة ما لم يظهر عدم الشهوة، وقدمنا عن الذخيرة نقل الخلاف في ذلك فما هنا مبني على ما في بيوع العيون۔(3 / 37)

وفيه ايضا:

"(قوله: على الصحيح جوهرة) الذي في الجوهرة للحدادي خلاف هذا فإنه قال لو مس أو قبل، وقال لم أشته صدق إلا إذا كان المس على الفرج والتقبيل في الفم. اهـ.

وهذا هو الموافق لما سينقله الشارح عن الحدادي، ولما نقله عنه في البحر قائلا ورجحه في فتح القدير وألحق الخد بالفم. اهـ.

وقال في الفيض: ولو قام إليها وعانقها منتشرا أو قبلها، وقال لم يكن عن شهوة لا يصدق، ولو قبل ولم تنتشر آلته وقال كان عن غير شهوة يصدق وقيل لا يصدق لو قبلها على الفم وبه يفتى. اهـ.

فهذا كما ترى صريح في ترجيح التفصيل، وأما تصحيح الإطلاق الذي ذكره الشارح، فلم أره لغيره نعم قال القهستاني: وفي القبلة يفتى بها أي بالحرمة ما لم يتبين أنه بلا شهوة ويستوي أن يقبل الفم أو الذقن أو الخد أو الرأس، وقيل إن قبل الفم يفتى بها، وإن ادعى أنه بلا شهوة، وإن قبل غيره لا يفتى بها إلا إذا ثبتت الشهوة. اهـ.

وظاهره ترجيح الإطلاق في التقبيل لكن علمت التصريح بترجيح التفصيل تأمل."(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 36) ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144207200928

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں