زید کا نکاح ہندہ سے ہونے والا تھا، نکاح سے پہلے زید کی ہندہ سے فون پہ بات ہوتی تھی، ایک دن ہندہ کا زید سے کسی بات میں اختلاف ہوگیا جس کی وجہ سے ہندہ نے زید کو اپنی سہیلی سے فون کروایا، اب فون پہ بات کے دوران زید نے ہندہ کی سہیلی سے کہا کہ جب بھی میں اس سے(ہندہ) نکاح کروں تو اسے طلاق ہے،تو جواب طلب امر یہ ہے کہ اب زید ہندہ سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو کیا اس قول کے باوجود زید کا نکاح ہندہ سے ہوگا یا نہیں؟ اور اگر ہوگا تو تو کیا اسے طلاق رجعی پڑے گی یا فضولی کے ذریعے اس کا نکاح ہوگا اور اگر فضولی کے ذریعے نکاح کرے تو نکاح فضولی کے بعد پھر اسی لڑکی سے وہ رسماً نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں زید نے اپنی منگیتر ہندہ کے بارے میں کہا کہ جب بھی میں اس سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہےتو اس صورت میں زید ہندہ سے نکاح کرے گا تو اس پر طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی، اگر زید ہندہ سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو زید کے والد یا کوئی بھی(فضولی ) زید کی اجازت کے بغیر زید کا نکاح ہندہ سے کر دے ،اور زید نکاح کی قولاً اجازت نہ دے بلکہ فعلا اجازت دے ،یعنی ہندہ کے پاس مہر بھیج دے یا اس سے جماع کر لے،تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہو گی۔
تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے :
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت".
(کتاب الطلاق،355/3،سعید)
مجمع الانھر میں ہے :
"(وفي لا يتزوج فزوجه) فضولي (فأجاز بالقول حنث) ؛ لأن الإجازة في الانتهاء كالإذن في الابتداء على ما عرف في تصرفات الفضولي (وبالفعل) أي لو جاز بالفعل كإعطاء المهر ونحوه".
(کتاب الایمان،575/1،المطبعة العامرة تركيا)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411100040
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن