بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مونچھوں کو اکھیڑنے کا حکم


سوال

 مونچھوں کے بال اکھاڑنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ احادیثِ مبارکہ میں مونچھوں کے بارے میں"قص"،"اِحفاء"اور"اِنہاک"وغیرہ جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان سے قینچی وغیرہ سے لینا ہی مفہوم ہوتا ہے؛ لہٰذا سنت یہی ہے کہ خوب کاٹی جائیں۔ تاہم اگر کوئی شخص مونچھوں کے بال اکھیڑتا ہے یا مونچھوں کے بال کاٹنے کے لیے استرے کا استعمال کرتا ہے تواس میں کوئی قباحت نہیں ہے، بشرطیکہ بال اکھاڑنے میں تکلیف نہ ہو۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عمرَ قال: قال رسول الله صلى الله علَيه وَسَلَّمَ: «انهكوا الشوارب، وأعْفوا اللحى»". (رواه البخارى ومسلم)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : مونچھوں کو خوب باریک کرو اور ڈاڑھیاں چھوڑو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

ایک دوسری حدیث میں ہے:

"عن أنس قال: «وقت لنا في قص الشوارب، وَتقليم الأَظفار، ونتف الْإبِط، وحلْق العانة، أن لا نترك أكْثرَ من أربعين ليلَة»". (رواه مسلم)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ۴۰روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔ (صحیح مسلم)

نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار (13/ 175):

"قلت: حاصل الكلام أن الإحفاء هو أن يأخذ من شاربه حتى يصير مثل الحلق، وأما الحلق بعينه فلم يرد، وقد كرهه بعض العلماء، فعلم من ذلك أن القص هو أن يأخذ منه شيئًا، والإحفاء أن يستأصله، وإن كان ابن عمر - رضي الله عنهما - كان يحفي حتى يُرَى جلده على ما يجيء إن شاء الله تعالى.
فعل هذا كل إحفاء قص، وليس كل قص إحفاء، دليل ذلك ما قاله عياض: إن هؤلاء الذين ذهبوا إلى أن القص هو المستحب ذهبوا إلى أن الإحفاء والجز والقص بمعنى واحد، وأنه الأخذ منه حتى يبدو الإطار وهو طرف الشفة".

فتاوی شامی میں ہے:

"واختلف في المسنون ‌في ‌الشارب هل هو القص أو الحلق؟ والمذهب عند بعض المتأخرين من مشايخنا أنه القص. قال في البدائع: وهو الصحيح. وقال الطحاوي: القص حسن والحلق أحسن."

(باب الجنایات فی الحج، ج:2، ص:550، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100651

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں