بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مونچھ لگے ہوئے کھانے کا حکم


سوال

مونچھ میں لگنےوالا کھانا یا جس کھانے میں مونچھیں ڈوب جائیں، اس کھانے کا حکم کیا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر مونچھ پاک ہے تو کھانا بھی پاک رہے گا، تاہم ایسے کھانے میں مونچھ لگنے کی وجہ سے طبعی کراہت ضرور پیدا ہوگی۔

باقی یہ بات ملحوظ رہے کہ آپ ﷺ نے اپنے اقوال اور طرزِ عمل سے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح جسمانی وضع قطع اور شکل و صورت کے بارے میں بھی امت کی راہ نمائی فرمائی ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ  رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: 

"پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ کے تقاضے اور دینِ فطرت کے خاص احکام ہیں: ختنہ، زیر ناف بالوں کی صفائی، مونچھیں تراشنا، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا۔"

(صحیح مسلم، باب خصال الفطرۃ، ج:1، 221، ط:داراحیاء التراث العربی)

نیز ان سب افعال کو فطرتِ انسانی قرار دینے کی وجہ طہارت و صفائی اور پاکیزگی حاصل کرنا ہے، اسی وجہ سے ان تمام افعال کو دیگر انبیاءِ سابقین کی بھی سنت قرار دیا گیاہے، لہٰذا مونچھ کے بال کاٹنا امورِ فطرت میں سے ہے اور جو شخص مونچھ اتنی بڑی چھوڑتا ہے جو کھانے وغیرہ میں پڑجاتے ہیں تو اس کے بارے میں مختلف احادیث میں مختلف وعیدیں آئی ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

"جس نے اپنی مونچھ بڑھائی، اس کو چار قسم کی سزادی جائےگی:

  •  میری شفاعت سے محروم ہوگا۔
  • میرے حوض کا پانی نصیب نہیں ہوگا۔
  • قبر کے عذاب میں مبتلا ہوگا۔
  •  اللہ تعالی منکر، نکیر کو  اس کے پاس غصے اور غضب کی حالت میں بھیجےگا۔

(اوجز المسالک الی موطا امام مالک، باب ماجاء فی السنۃ فی الفطرۃ، قص الشارب والابحاث فیہ، ج:16، ص:260، ط:دارالکتب العلمیۃ)

حدیث شریف میں ہے:

"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ چالیس (40) روز سے زیادہ نہ چھوڑیں۔"

(صحیح مسلم، باب خصال الفطرۃ، ج:1، 221، ط:داراحیاء التراث العربی)

لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى اللَّه عليه وسلم: "عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ،

قوله: (عشر) أي خصال عشر (من الفطرة)، الفطر في الأصل بمعنى الشق والابتداع والاختراع، والفطرة الخلقة كقوله: {فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ}، والخلقة الجبلة التي خلق عليها المولود، وفسر كثير من العلماء الفطرة في هذا الحديث بالسنة، أي: سنة الأنبياء الذين أمرنا بأن نقتدي بهم كما جاء حديث (2): (أربع من سنن المرسلين)، وإنما يقال لها: سنة إبراهيم لكونه عليه السلام أول من أمر بها، وقيل: أي: من السنن القديمة التي اختارها الأنبياء -عليهم السلام- واتفقت عليه الشرائع فكأنها أمر جبلي فطروا عليه.

وقال التُّورِبِشْتِي: ولو فسرت بالدين لكان أوجه كما في قوله تعالى: {فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا} [الروم: 30]، أي: دينه الذي اختاره لأول مفطور من البشر، ويكون معنى الحديث: عشر من توابع الدين ولواحقه، والمعدودات من جملته أو مما ركب في العقول التي فطر اللَّه الخلق عليها استحسان ذلك.

وقوله: (قص الشارب) قص الشعر والظفر قطع منهما بالمقص، أي: المقراض، والشارب ما سال على الفم من الشعر، أو ما طال من ناحيتي السبلة، والسبلة كلها شارب، والمختار قصه حتى يبدو طرف الشفة ولا يُحفه من أصله، وذهب بعضهم بظاهر.

قوله: (أحفوا الشوارب) إلى استئصاله وحلقه وهو قول الكوفيين وأهل الظواهر وكثير من السلف، وخالفهم آخرون وأولوا الإحفاء بالأخذ حتى تبدو أطراف الشفة، وهو المختار، ويرى مالك حلقَه مُثْلةً ويؤدب فاعله، وخيز البعض بينهما، وليس ما ورد نصًّا في الاستئصال، والمشترك بين جميعها التخفيف، وهو أعم من أن يكون الأخذ من طول الشعر أو من مساحته، وظاهر الألفاظ الأخذ من الطول ومساحته حتى يبدو الإطار، وقد اشتهر عن أبي حنيفة أنه ينبغي أن يأخذ من شاربه حتى يصير مثل الحاجب، وندب بعض الحنفية توفير الشارب للغازي في دار الحرب لإرهاب العدو، ولا بأس بترك سبالته وهما طرفا الشارب، نقل ذلك عن عمر وغيره لأنه ذلك لا يستر الفم ولا يبقى فيه غمر الطعام إذ لا يصل إليه."

(باب السواك، الفصل الاول، ج:2، ص:103، ط:دارالنوادر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201455

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں