بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منہ بولے بیٹے کے نام کی ہوئی جائیداد کا شرعی حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ ایک بھائی جس کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہے اپنے بھائی کی اولاد کو اپنی اولاد بنا یا ہو اور اپنی جائیداد اپنے بھائی کے بیٹے کے نام کر دی ہو باقاعدہ کاغذی کاروائی اور گواہان کی موجودگی کے ذریعے،  اب اس بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے تو  کیا یہ جائیداد  اس بیٹے کے بیوی بچوں کی طرف منتقل ہوگی؛ کیوں کہ اس بیٹے کی بیوہ اور بچے بھی ہیں؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ اگر مذکورہ شخص نےاپنی مذکورہ جائیداد منہ بولے بیٹے (بھتیجے) کے نام کرنے کے ساتھ  ساتھ  باقاعدہ شرعی قبضہ اور مکمل تصرف واختیار بھی دیا تھا، تو  مذکورہ جائیداد چچا کی طرف سے بھتیجے کو ہبہ ہونے کی وجہ سےبھتیجے کی ملکیت تھی، لہذا ان کی انتقال کے بعد مذکورہ جائیداد  مرحوم کے شرعی ورثاء (بیوہ، والدین، بچوں وغیرہ) میں اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگی، تاہم اگر چچا کی طرف سے جائیداد صرف بھتیجے  کے نام ہوئی تھی، باقاعدہ شرعی قبضہ وتصرف نہیں دیاگیا تھا، تو  چچا کی طرف سے جائیداد محض نام کردینے  سے اور اس پر لوگوں کو  گواہ بنادینے سے ہبہ تام نہیں تھا، لہذا اس صورت میں جائیداد مرحوم  بھتیجے کی ملکیت نہیں تھی، اور  اس کے انتقال کے بعد  میراث شمار نہیں ہوگی۔ 

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية"،

( الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز،ج:4،ص:378،ط:مکتبہ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."

(کتاب الھبۃ،ج:5،ص:690، ط :ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144209201860

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں