بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ممتدة الطهر خاتون طلاق کی عدت کیسے پوری کرے؟


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرے شوہر نے محرم الحرام کے مہینے میں تین طلاقیں دی ہیں، شوہر کے الفاظ یہ تھے: "میں آپ کو طلاق دیتا ہوں" ، یہ جملہ تین مرتبہ کہا تھا، اور پھر  یہی الفاظ تحریری طور پر لکھ کر بھی دیئے تھے۔ 

مسئلہ یہ ہے کہ میرے ہارمونز کا مسئلہ ہے،  جس کی وجہ سے ماہواری آنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں ،جب کہ میری عمر 37 سال ہے ،  اس طلاق کے بعد سے اب تک  مجھے صرف ایک حیض ہی آیا ہے، میرا ایک رشتہ آیا ہے، کیا  میں دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہوں یا نہیں ؟ جب کہ یہ بات تو یقینی ہے کہ مجھے کوئی حمل نہیں ہے، ایسی صورت میں  کیا مجھے تین ماہواریوں  تک انتظار کرنا ہوگا،  چاہے جتنا وقت لگ جائے ؟ جو بھی شرعی حکم ہو ہو تحریر تو فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اصل حکم تو یہی ہے کہ سائلہ سن ایاس یعنی پچپن سال کی عمر تک  بقیہ دو  ماہواریاں  آنے کا انتظار کرے، اور  اپنا علاج کروائے، تاکہ بقیہ دو ماہواریاں آجائیں، پس اگر علاج کے باوجود ماہواری جاری نہ ہو،  بالکل بند ہوجائے، اور سال بھر ماہواری نہ آئے تو ایسی صورت میں عدالت سے رجوع کرے، جس کے بعد جج تین ماہ عدت گزارنے کا حکم صادر کرے، اور   تکمیل عدت کے بعد قاضی  سائلہ کو دوسرے نکاح کی اجازت دے دے۔ البتہ قاضی کی جانب سے تین ماہ عدت گزارنے کے فیصلہ کے بعد  اور تین ماہ   مکمل ہونے سے پہلے پہلے اگر سائلہ ماہواری آجائے تو اس صورت میں اسے تین ماہواریاں  ہی پوری کرنا ضروری ہوگا۔

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال (۱۳۵۱): قدیم ۲/ ۴۹۰ - ایک عورت کو برابر بدستور اور عورتوں کے حیض آتا تھا ،مگر فی الحال ایک سال سے اس کو حیض موقوف ہے اور اس کے شوہر نے اُس کو طلاق دیا ہے اب وہ عورت عدت کتنے روز بیٹھے گی اُس کے لئے عدت بالاشہر ہے یا عدت بالحیض اگر عدت بالاشہر ہے تو تین ماہ عدت ہوگی یا زیادہ اگر عدت بالحیض ہے تو سن ایاس تک انتظار حیض کا کیا جائے گا یا نہیں اگر سن ایاس تک انتظار کیا جائے تو وہ عورت نہایت غریب ہے اس کے خورد پوش کا کوئی ظاہری سامان نظر نہیں آتا؟ بینوا تو جرو

الجواب : در مختار و رد المختار کے باب العدة سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں حنفیہ کے نزدیک تو مدت ایاس تک انتظار حیض کا ضروری ہے اور مالکیہ کے نزدیک نو مہینے اور بقول معتمد ایک سال وقت سے عدت ہے اور ضرورت کے وقت اس قول پر عمل جائز ہے اھ احقر کہتا ہے کہ اس میں یہ امور قابل لحاظ ہوں گے:

اول : اُس کا علاج کیا جائے اگر علاج سے بھی ادرار نہ ہو تب اس قول پر عمل کیا جائے کیونکہ ضرورت کا تحقق اُسی وقت ہوگا۔

دوم: اس قول پر عمل کرنے کے لئے قضاء قاضی کی حاجت ہوگی اور حاکم مسلم گو منجانب کافر بادشاہ کے ہو قاضی شرعی ہے پس سرکار میں ایک درخواست اس کی پیش کی جائے کہ کسی مسلمان حاکم کو اس مسئلہ میں حکم کرنے کا اختیار دیدیا جائے پھر وہ حاکم مسلم اس فتوی کے موافق اُس عورت کو عدت گزار کر نکاح ثانی کر لینے کی اجازت دیدے، اسی طرح عمل کیا جائے۔

سوم: اگر اس قول کے موافق عدت شروع کی اور قبل ختم ہونے ایک سال کے اتفاقا حیض جاری ہو گیا تو پھر عدت حیض سے کی جائے گی ۔ واللہ اعلم ۹ ذیقعده، ۱۳۲۵ھ"

(باب في العدة و الرجعة، حکم عدت ممتدة الطهر، ٥ / ٣٩٣، : زکریا بک ڈپو انڈیا)

احسن الفتاوی میں ہے:

"عدت ممتدة الطهر :

سوال : اگر کسی جوان عورت کو ماہواری بالکل نہ آتی ہو یا بہت طویل عرصہ کے بعد آتی ہو اور اس کو طلاق ہو جائے تو وہ عدت کیسے گزارے ؟ کیا تین مہینے پورے کرنے سے عدت ختم ہو جائے گی یا شرعا کوئی دوسرا طریقہ ہے؟ بینوا توجروا

الجواب باسم ملهم الصواب

جس عورت کو شروع ہی سے حیض بالکل نہ آیا ہو اس کی عمر تیس سال ہو جانے پر وہ آیسہ شمار ہوگی، اور اگر حیض آنے کے بعد بالکل بند ہو گیا یا بہت مدت کے بعد آتا ہو تو یہ پچپن سال کی عمر ہونے پر آیسہ ہو گی، دونوں قسم کی آیسہ کی عدت تین مہینے ہے، مگر صورت ثانیہ میں یہ شرط ہے کہ کم از کم چھ ماہ سے حیض بند ہو، یہ چھ ماہ کی مدت پچپن سال کی عمر پوری ہونے سے قبل گزر چکی ہو تو وہ بھی معتبر ہے، یعنی اس صورت میں پچپن سال پورے ہونے کے بعد تین ماہ گزرنے پر عدت پوری ہو جائے گی، دونوں قسم کے ایاس میں اگر عدت کے تین ماہ پورے ہونے سے قبل حیض جاری ہو گیا تو از سر نو عدت تین حیض پوری کرے، اگر سنِ ایاس سے قبل عدت کی نوبت آجائے تو بذریعہ علاج حیض جاری کر کے تین حیض عدت پوری کرے، اگر کسی علاج سے بھی حیض جاری نہ ہو تو بوقت ضرورت کسی مالکی قاضی سے ایک سال کی عدت کا فیصلہ کرایا جائے، اگر مالکی قاضی میسر نہ ہو، اور ضرورتِ شدیدہ ہو تو بدون قضاء بھی ایک سال کی عدت کا فتوی دیا جا سکتا ہے۔"

(باب العدة، ٥ / ٤٣٤ - ٤٣٥، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101844

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں