بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملٹی لیول مارکیٹنگ کا حکم


سوال

 ملٹی لیول مارکیٹنگ  شرعاًکیسی ہے؟

جواب

 ملٹی لیول مارکیٹنگ  کا بزنس ماڈل چین در چین کمیشن کا ہے، کہ نئے ممبر بنانے کے بعد  ہر بعد میں شامل ہونے والے ممبر کے منافع میں سے پہلے شخص کو بھی منافع ملتا رہتا ہے،  جب کہ  شریعت میں بلا  محنت  کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے، اسلامی معیشت کے اصولوں کی رو سے  کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ فقہاء کرام نے  کمیشن کے معاوضہ کو اجارہ کے اصولوں سے منحرف ہونے اور جسمانی محنت کے غالب عنصر سے خالی ہونے کی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے،  لیکن لوگوں کی ضرورت اور کثرت تعامل کی بنا پر کمیشن کے معاملہ کی محدود اجازت دی ہے، لیکن ساتھ ہی اکثر صورتوں کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔

لہذا  جس  معاملہ میں خود اپنی محنت اور عمل شامل ہو اور وہ کام بھی جائز ہو تو  اس کا کمیشن لینا تو جائز ہے، لیکن  کسی  کاروبار  کی  اس طرح   تشہیر  کرنا کہ  جس میں چین در چین کمیشن ملتا رہے جب کہ   بعد والوں  کی خریداری یا ان کو شامل کرانے میں   بالائی (اوپر والے) ممبر کی کوئی خاص محنت شامل نہ ہو    بلکہ ماتحت ممبران کی محنت کا ثمرہ ہو تو یہ  دوسرے کی محنت سے فائدہ اٹھانا جو کہ استحصال کی ایک شکل ہے، اور یہ جائز نہیں ہے۔

نیز ملٹی لیول مارکیٹنگ  کمپنی  کا عام طور پر   بنیادی مقصد ممبر سازی ہوتی، حقیقی خرید وفروخت مقصود نہیں ہوتی اور   شرعاً ممبر سازی کی حیثیت کاروبار  کی نہیں ہے، لہذا ممبر سازی  اور کمیشن کو مستقل کاروبار کی حیثیت دے کر اس پر نفع کمانا جائز نہیں ہے۔

لہذا ملٹی لیول مارکیٹنگ کے ذریعہ کمیشن حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

شعب الإيمان میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم ‌أيّ ‌الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور."

(2/ 84، التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء ،ط:دار الكتب العلمية)

شرح المشكاة للطيبی میں ہے:

"قوله: ((مبرور)) أي ‌مقبول ‌في ‌الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."

(7/ 2112، كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال،ط؛مكتبة نزار مصطفى الباز)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(6/ 63، کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدہ، مطلب فی اجرۃ الدلال، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406102098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں