بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملحق بالصریح سے طلاقِ رجعی یا بائن واقع ہونے کا مدار لفظ کے مقتضیٰ پر ہے / لفظِ آزاد سے رجعی یا بائن واقع ہونے میں علمائے کرام کا منشاء اختلاف کیا ہے؟


سوال

لفظِ "آزاد" اور لفظِ "حرام" موجودہ زمانے میں طلاق کے لیے صریح بن گئے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ بیشتر علمائے امت نے لفظِ "آزاد" میں تو رجعی کا فتویٰ دیا ہے، لیکن لفظِ "حرام" سے طلاقِ بائن کا فتویٰ دیا ہے؟

لفظِ "آزاد" سے طلاقِ رجعی کے حوالہ جات:

(1) آپ کے مسائل اور ان کاحل: ٦/ ٤٥٥- ٤٥٦، ط: مکتبہ لدھیانوی

(2) فتاویٰ محمودیہ : ١٢/ ٣٥٨ - ٣٥٩، ط: ادارۃ الفاروق

(3) نجم الفتاویٰ: ٦/ ١٨٤،  ط: شعبہ نشر واشاعت دارالعلوم یاسین القرآن 

(4) فتاویٰ حقانیہ : ٤/ ٤٧٧، ٤٧٨، ط: دار العلوم حقانیہ 

(5) امداد الفتاویٰ: ٥/ ٢٥٦، ط: دارالاشاعت

جواب

واضح رہے کہ کسی لفظ سے طلاقِ رجعی یا طلاقِ بائن واقع ہونے کا مدار، اُس لفظ کے صریح یا کنایہ ہونے پر نہیں، بلکہ اُس لفظ کے مفہوم کے مقتضیٰ پر ہوتا ہے۔ اگر لفظ کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ شوہر سے اس کی بیوی مکمل جداہوجائے، تو اس لفظ سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے، اور اگر ایسا نہ ہو تو طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے۔ 

جیسا کہ النتف فی الفتاویٰ میں ہے:

"وأما الطلاق الرجعي فإن كل لفظة فيها ‌لين ‌ولطف فهو رجعي، وكل لفظ فيه عنف وغلظ فهو بائن."

(كتاب الطلاق، ١/ ٣٢١، ط: مؤسسة الرسالة)

نیز فتاویٰ شامی میں لفظِ "حرام" سے طلاقِ بائن واقع ہونے کی علت پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں :

"‌(قوله: لغلبة العرف) إشارة إلى ما في البحر، حيث قال: فإن قلت إذا وقع الطلاق بلا نية ينبغي أن يكون كالصريح فيكون الواقع به رجعيا قلت: المتعارف به إيقاع البائن، كذا في البزازية اهـ أقول: ‌وفي ‌هذا ‌الجواب ‌نظر فإنه يقتضي أنه لو لم يتعارف به إيقاع البائن يقع الرجعي كما في زماننا، فإن المتعارف الآن استعمال الحرام في الطلاق، ولا يميزون بين الرجعي والبائن فضلا عن أن يكون عرفهم فيه البائن، وعلى هذا فالتعليل بغلبة العرف لوقوع الطلاق به بلا نية، وأما كونه بائنا فلأنه مقتضى لفظ الحرام لأن الرجعي لا يحرم الزوجة ما دامت في العدة وإنما يصح وصفها بالحرام بالبائن، وهذا حاصل ما بسطناه في الكنايات فافهم."

(كتاب الطلاق، باب الإيلاء، ٣/ ٤٣٥، ط: سعيد)

اور باب الکنایات میں اس بات  کا ذکر ہے کہ  ملحق بالصریح سے طلاقِ بائن واقع ہونا قواعدِ فقہ کے خلاف نہیں؛ کیوں کہ رجعی یا بائن کا مدار لفظ کے صریح یا کنایہ ہونے پر نہیں ہے، بلکہ بعض اوقات لفظِ صریح سے بھی بائن واقع ہوجاتی ہے اور بعض الفاظِ کنائی سے رجعی واقع ہوتی ہے:

"‌وكونه ‌التحق بالصريح للعرف لا ينافي وقوع البائن به، فإن الصريح قد يقع به البائن كتطليقة شديدة ونحوه: كما أن بعض الكنايات قد يقع به الرجعي، مثل اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة.

والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن، هذا غاية ما ظهر لي في هذا المقام، وعليه فلا حاجة إلى ما أجاب به في البزازية من أن المتعارف به إيقاع البائن، لما علمت مما يرد عليه، والله سبحانه وتعالى أعلم."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ٣/ ٣٠٠، ط: سعيد)

لہٰذا  جن  علمائے کرام نے لفظِ "آزاد" سے طلاقِ رجعی واقع ہونے کا قول اختیار کیا ہے، اُن کے نزدیک یہ "سرحتك" کا ترجمہ ہے، اور لفظ "سرحتك" سے طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے، اس لیے اُن کے نزدیک لفظِ "آزاد" سے بھی طلاقِ رجعی واقع ہوتی ہے، جیسا کہ سوال میں محولہ فتاویٰ جات کی عبارتوں اور ان کے استدلالات کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے،  تاہم ہمارے دارالافتاء کی تحقیق کے مطابق لفظِ "آزاد"،  "أنت حرة" کا ترجمہ ہے "سرحتك" کا نہیں، اور "أنت حرة" کے معنیٰ میں چوں کہ لفظِ "حرام" کی طرح شدت اور سختی ہے، اور متقدمین فقہاء کرام نے  اس سے طلاقِ بائن واقع ہونے کا فتویٰ نقل کیا ہے، لہٰذا لفظِ "آزاد" سے طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے، اور اسی قول کو فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (٩/ ٢٦٨، ٢٩٨، ٣١٠، ط: دارالاشاعت)،  کفایت المفتی (٦/ ٣٨٣، ط:دارالاشاعت)، فتاویٰ مفتی محمود (٦/ ٣٦١، ط: جمعیۃ پبلکیشنز)، احسن الفتاویٰ (٥/ ٢٠٢، ط: ایچ ایم سعید)، خیر الفتاویٰ (٥/ ٢١٢، ط: مکتبہ امدادیہ ملتان)، اور فتاویٰ دارالعلوم زکریا (٤/ ١٤٢، ط: زمزم پبلشر) میں بھی اختیار کیا  گیا ہے۔

کتاب الاصل میں ہے:

"وإذا قال الرجل لامرأته: أنت مني بائن أو برية أو خلية، فإنه يسأل عن نيته ... فإن نوى واحدة فهي واحدة بائن ... وإن نوى الطلاق ولم ينو عددا فهي واحدة بائنة. وكذلك كل كلام يشبه الفرقة مما أراد به الطلاق فهو مثل هذا، كقوله: حبلك على غاربك ...وكذلك لو قال لها: ‌أنت ‌حرة، ينوي الطلاق."

(كتاب الطلاق، ‌‌باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق من الكلام، ٤/ ٤٥٣، ط: دار ابن حزم)

کنز الدقائق میں ہے:

"فتطلق واحدة رجعية في اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة وفي غيرها بائنة ... وهي بائن بتة بتلة حرام ... ‌أنت ‌حرة."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، ص: ٢٧٦، ط: دار البشائر الإسلامية)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك ... أو ‌أنت ‌حرة ... يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الخامس، ١/ ٣٧٥، ط: دارالفكر)

وفيه أيضاً:

"ولو قال أعتقتك طلقت بالنية كذا في معراج الدراية. وكوني حرة أو اعتقي مثل ‌أنت ‌حرة كذا في البحر الرائق."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الخامس، ١/ ٣٧٦، ط: دارالفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: أنت حرة) ‌عن ‌حقيقة ‌الرق ‌أو ‌عن ‌رق ‌النكاح، وفي فتح القدير وأعتقتك مثل أنت حرة، وفي البدائع كوني حرة أو اعتقي مثل أنت حرة ككوني طالقا مثل أنت طالق."

(كتاب الطلاق، باب الكنايات في الطلاق، ٣/ ٣٢٥، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں