میں عرصہ سات سال سے دوسرے شہر میں ملازمت کے سلسلے میں رہ رہا ہوں۔ اور ہر جمعے کی شام کو اپنے آبائی شہر واپس آ جاتا ہوں اور سوموار کی صبح پھر دوسرے شہر چلا جاتا ہوں۔ اس عرصہ میں، میں کبھی بھی 6 دن سے زیادہ دوسرے شہر میں نہیں رکا. اس صورت میں کیا میں قصر نماز پڑہوں گا؟
واضح رہے کہ شرعی مسافتِ سفر سوا ستتر کلومیٹر ہے، اس سے کم سفر کی صورت میں آدمی شرعاً مسافر نہیں کہلاتا، لہٰذا اگر آپ کی ملازمت والا مقام آپ کےشہر سے سوا ستتر کلومیٹر کے فاصلے سے کم مسافت پر ہے تو یہ شرعی مسافتِ سفر نہیں ہے، اس صورت میں آپ دونوں جگہ پوری نماز پڑھیں گے۔
اور اگر ملازمت والا شہر آپ کے شہر سے کم از کم سوا ستتر کلومیٹر دور ہے اور آپ اس ملازمت والے شہر میں زیادہ سے زیادہ 6 دن گزار کر واپس آجاتے ہیں اور اس عرصے میں ایک مرتبہ بھی آپ پندرہ دن یا اس سے زیادہ وہاں نہیں ٹھہرے تو آپ اس شہر میں تنہا نماز پڑھتے ہوئے یا امامت کراتے ہوئے چار رکعات والی فرض نماز میں قصر کریں گے۔ البتہ اگر آپ ایک دفعہ بھی ملازمت والے شہر میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہر گئے تو ملازمت والا شہر آپ کا وطنِ اقامت بن جائے گا، پھر جب تک نوکری کے سلسلے میں وہاں آپ کا آنا جانا لگا رہے اور آپ کا ضروری سامان وہاں موجود رہے تو ہر مرتبہ پندرہ دن کی نیت سے ٹھہرنا ضروری نہیں ہوگا، بلکہ جب تک سامان اٹھا کر آپ وہاں سے منتقل نہیں ہوتے، اس وقت تک آپ وہاں پوری نماز پڑھیں گے، چاہے تین، چار دن کا قیام ہی کیوں نہ ہو۔
بصورتِ مسئولہ آپ اپنےآبائی شہر اورملازمت والے شہر کے درمیان مسافت کی تحقیق کرکے مذکورہ تفصیل کے مطابق عمل کیجیے۔
وفي الفتاوى الهندية :
" أقل مسافة تتغير فيها الأحكام مسيرة ثلاثة أيام، كذا في التبيين."
(1/ 138ط:ماجدية)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 147):
"كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ... وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر".
(باب صلاۃ المسافر ،ج:۴/ ۱۱۲ ،ط:سعید )
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144203201294
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن