بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمین کا ایک دوسرے کی جگہ کام کرنا


سوال

میں ایک سرکاری ادارے   میں ملازم ہوں، جو   24   گھنٹے کھلا رہتا ہے اور تین شفٹوں میں کام ہوتا ہے ، ضرورت کے وقت کبھی کبھار ہم ایک دوسرے کی جگہ ڈیوٹی کرتے ہیں، یعنی اگر آج ایک  ساتھی میری جگہ صبح کی ڈیوٹی کرتا ہے تو بعد میں اس کی جگہ میں صبح کی ڈیوٹی کرتا ہوں، اسی  طرح اکثر ایک  ساتھی لیٹ ہوجاتا ہے تو  دوسرے ساتھی کو اطلاع کرتا ہے کہ میں لیٹ ہوں، میرے آنے تک بیٹھ جانا، تووہ بیٹھ جاتا ہے، یا اگر اس نے جلدی جانا ہوں تو ساتھی کو اطلاع کرتا ہے کہ آج ذرا جلدی آنا تو  وہ وقت سے پہلے آجاتا ہے، کبھی  کبھار اس طرح بھی ہوتا ہے کہ ایک  ساتھی  دوسرے کو  کہتا ہے کہ آپ  کے آنے  کی ضرورت  نہیں،  میں آپ کی جگہ  ڈیوٹی کرتا ہوں، بدلے میں کرنے کی ضرورت نہیں، اگر محکمہ کی طرف سے اجازت ہو کہ کام نہیں رکنا چاہیے، جو بھی سنبھال لے۔  اب  میں  نے پوچھنا ہے:

1-  کیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ  ڈیوٹی  تبدیل  کرسکتے  ہیں یا  نہیں؟

2-  کیا ہم مقررہ وقت سے پہلے یا وقت کے بعد جا سکتے  ہے یا نہیں، اگر  ساتھی کو  اطلاع کردیا کریں  یا  دوسرا ساتھی موجود ہو؟

3-  ایک  ساتھی  دوسرے  کی  جگہ  بدلے  کے بغیر اپنے  مرضی  سے  ڈیوٹی  کر سکتا  ہے  ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  مذکورہ  ادارے کے  قانون  اور ضابطہ میں یا ادارے کےبااختیار مجاز ذمہ دار یا مالک کی طرف سے اس بات کی اجازت ہے کہ ملازمین کسی بھی طرح اپنا کام مکمل کرلیں، خواہ خود کریں یا  کسی دوسرے شخص سے کروالیں  تو اس صورت میں   ملازمین کا باہمی رضامندی سے ایک دوسرے کی جگہ کام کرنا جائز ہے ، لیکن  اگر مذکورہ ادارے کے  قانون  اور ضابطہ میں یا ادارے کے بااختیار مجاز ذمہ دار یا مالک کی طرف سے  اس بات کی اجازت  نہیں ہے کہ ملازمین اپنا  کام کسی اور سے کروائیں، بلکہ ان کے لیے خود ڈیوٹی کرنا ضروری ہے تو اس صورت میں  ملازمین  کے لیے اپنی جگہ کسی اور کو ڈیوٹی پر مقرر کرنا  جائز نہیں  ہے، اور ڈیوٹی  سرانجام دیے بغیر  تنخواہ لینا بھی ناجائز اور حرام ہوگا۔

 شرح المجلہ للاتاسی میں ہے:

"الْأَجِيرُ الَّذِي اُسْتُؤْجِرَ عَلَى أَنْ يَعْمَلَ بِنَفْسِهِ لَيْسَ لَهُ أَنْ يَسْتَعْمِلَ غَيْرَهُ مَثَلًا: لَوْ أَعْطَى أَحَدٌ جُبَّةً لِخَيَّاطٍ عَلَى أَنْ يَخِيطهَا بِنَفْسِهِ بِكَذَا دَرَاهِمَ، فَلَيْسَ لِلْخَيَّاطِ أنْ يَخِيطَهَا بِغَيْرِهِ وَإِنْ خَاطَهَا بِغَيْرِهِ وَتَلِفَتْ فَهُوَ ضَامِنٌ ..... لَوْ أَطْلَقَ الْعَقْدَ حِينَ الِاسْتِئْجَارِ فَلِلْأَجِيرِ أَنْ يَسْتَعْمِلَ غَيْرَهُ". 

(2/271،272/ المادۃ؛571، 572، کتاب  الاجارۃ، ط: رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وَإِذَا شَرَطَ عَمَلَهُ بِنَفْسِهِ) بِأَنْ يَقُولَ لَهُ: اعْمَلْ بِنَفْسِكَ أَوْ بِيَدِكَ (لَايَسْتَعْمِلُ غیرهُ إلَّا الظِّئْرَ فَلَهَا اسْتِعْمَالُ غَيْرِهَا) بِشَرْطٍ وَغَيْرِهِ، خُلَاصَةٌ (وَإِنْ أَطْلَقَ كَانَ لَهُ) أَيْ لِلْأَجِيرِ أَنْ يَسْتَأْجِرَ غَيْرَهُ". 

(6/18، کتاب الاجارۃ، ط: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في البحر: وحاصل ما في القنية: أن النائب لايستحق شيئاً من الوقف؛ لأن الاستحقاق بالتقرير، ولم يوجد، ويستحق الأصيل الكل إن عمل أكثر السنة. وسكت عما يعينه الأصيل للنائب كل شهر في مقابلة عمله، والظاهر أنه يستحق؛ لأنها إجارة وقد وفى العمل بناء على قول المتأخرين المفتى به من جواز الاستئجار على الإمامة والتدريس وتعليم القرآن … وقال في الخيرية: بعد نقل حاصل ما في البحر: والمسألة وضع فيها رسائل، ويجب العمل بما عليه الناس وخصوصاً مع العذر، وعلى ذلك جميع المعلوم للمستنيب وليس للنائب إلا الأجرة التي استأجره بها". اهـ. 

(شامی 4/420، کتاب الوقف، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں