بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 محرم 1447ھ 03 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کے دوران ذاتی کام کرنا یا ضرورتاً موبائل وغیرہ استعمال کرنے کا حکم


سوال

کسی بھی کاروباری ادارے میں کام کرنے والے، جہاں مختلف اسٹاف کو مختلف نوعیت کے افعال (Job Description) تفویض کیے جاتے ہیں،  اس سے متعلق ہم آپ کی خدمت میں چند اہم سوالات پیش کر رہے ہیں، جن کا شرعی حکم قرآن و سنت کی روشنی میں مطلوب ہے۔ برائے مہربانی ہماری رہنمائی فرمائیں:

سوال نمبر 1:

ادارے کے بعض Employees اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں ذاتی طور پر اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کی خرید و فروخت (Trading) کرتے ہیں، یعنی وہ کمپنی کے آفس ٹائم (Office Timing) میں اسٹاک ایکسچینج کے ریٹس لیتے اور دیتے ہیں، اور موبائل یا کمپیوٹر کے ذریعے اپنی ذاتی ٹریڈنگ کرتے ہیں، جس میں انہیں ذاتی نفع یا نقصان ہوتا ہے،کمپنی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

از راہِ کرم وضاحت فرمائیں:ٍ

(الف) کیا ملازمین کا اپنی تنخواہ کے اوقات میں ذاتی مالی معاملات یا تجارت میں مشغول ہونا شرعاً درست ہے؟

سوال نمبر 2:

ادارے میں بعض ملازمین دفتر کے اوقات میں اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے: Games, Emails, YouTube, TikTok, WhatsApp & Instagram Messages، نیز چیٹ، ویڈیوز وغیرہ پر وقفہ وقفہ سے مصروف ہوتے یا موبائل چیک کرتے رہتے ہیں۔

از راہِ کرم وضاحت فرمائیں:

(الف) کیا ملازمین کا یہ طرزِ عمل وقت کی خیانت میں شمار ہو گا؟

(ب) کیا کمپنی اس پر قدغن لگا سکتی ہے؟

سوال نمبر 3:

ادارے کے بعض افراد دفتر کے اوقات میں بیرونی افراد یا اداروں سے ذاتی آزاد معاہدوں (Assignments / Freelance) کے تحت کوئی پروڈکٹ تیار کرنے یا کسی فارمولیشن کی تیاری کا کام لیتے ہیں۔  اس مقصد کے لیے وہ ادارے کی لیبارٹری، مشینری، وقت اور دیگر وسائل استعمال کرتے ہیں، جب کہ یہ سب کچھ کمپنی کے بجائے ذاتی مفاد کے لیے ہوتا ہے۔

از راہِ کرم وضاحت فرمائیں:

(الف) کیا ایسا طرزِ عمل شرعاً خیانت کے زمرے میں آتا ہے؟

(ب) کیا ادارے کے وسائل کو ذاتی معاہدے کے لیے استعمال کرنا شرعاً درست ہے؟

سوال نمبر 4:

کچھ ملازمین دفتر کے اوقات، دفتری انٹرنیٹ اور دیگر وسائل کے ذریعے نئی ملازمتوں کی تلاش میں رہتے ہیں، جیسے: Linkedin، WhatsApp یا فون کالز کے ذریعے رابطے کرنا۔ نیز، جب دفتر میں وینڈرز، سپلائرز یا ڈسٹری بیوٹر مختلف کاموں کے لیے آتے ہیں، تو بعض ملازمین ان سے ذاتی ملازمت کے لیے سفارش یا نوکری کی بات کرتے ہیں۔

براہِ کرم وضاحت فرمائیں:

(الف) کیا دفتر کے اوقات میں نئی ملازمت کی تلاش اور اس نوعیت کے روابط جائز ہیں؟

(ب) کیا یہ عمل صرف ذاتی وقت، مثلاً دفتر آنے سے پہلے یا چھٹی کے بعد انجام دینا چاہیے؟

(ج) کیا دفتر میں آنے والے افراد سے ذاتی ملازمت کے لیے بات کرنا اور ان کا وقت لینا شرعاً درست ہے؟

سوال نمبر 5: ادارے کے اندر ملازمین کو بہکانا، بدظن اور گمراہ کرنا

ادارے میں بعض ملازمین، خود ادارے سے وابستہ ہونے کے باوجود دیگر ساتھی ملازمین کو ادارے سے بدظن، مایوس اور بددل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ انہیں مختلف انداز میں بہکاتے، گمراہ کرتے اور حوصلہ شکنی کرتے ہیں، مثلاً:"تمہاری تنخواہ کم ہے۔""دوسری جگہ زیادہ مراعات اور بہتر سہولیات ہیں۔""یہ ادارہ تمہاری قدر نہیں کرتا۔""تمہارا دفتر بہت دور ہے، کہیں قریب نوکری کر لو۔" وغیرہ،اس قسم کی باتوں کے ذریعے وہ ساتھی ملازمین کے دل میں ادارے کے خلاف بدگمانی اور بے اعتمادی پیدا کرتے ہیں، جس سے ادارے کے ماحول میں بے سکونی، بد دلی اور خلفشار پیدا ہو جاتا ہے۔

(الف) کیا اس قسم کی باتیں کرنا، دوسروں کو ادارے سے بدظن اور بد دل کرنا، شرعاً خیانت، فتنہ انگیزی اور غیر دیانت داری کے زمرے میں آتا ہے؟

(ب) کیا ایسا رویہ رزقِ حلال کے منافی اور ایک مسلمان ملازم کے اخلاقی و شرعی کردار کے خلاف تصور ہو گا؟

جواب

[1:(الف)2:(الف/ب)3:(الف/ب)4:(الف/ب/ج)] کسی بھی ادارے میں کام  کرنے والے ملازمین ‘ ملازمت کے آغاز میں باہم طے پانے والے معاہدے کے شرعاً پابند ہیں، ادارےکےاوقات  ملازم  کے پاس امانت ہوتے ہیں اور ان اوقات کی  پابندی  کے  ساتھ   ساتھ  اس دوران  ملازم کو اپنا کوئی ذاتی کام کرنے  کی شرعاً اجازت نہیں ہے، جتنا وقت اُس موقع پر طے ہوتاہےوہ ادارے کی امانت ہے اور اتنا وقت کمپنی کو دینا اور اس میں ادارے  کا ہی کام کرنا شرعاً لازم ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ملازمین کاذاتی مالی معاملات میں یاخارجی تجارت میں مشغول ہونا ،یا غیر ضروری  میسجز،واٹس ایپ کا غیر ضروری استعمال یوٹیوب،ٹک ٹاک،انسٹا گرام،ویڈیوز اور موبائل  بلا ضرورت استعمال کرناادارے کے ساتھ خیانت ہےاوردفتری انٹر نیٹ اوردیگر دفتر کے ذاتی ذرائع  کا استعمال کرنا اور دفتری اوقات میں اس کے ذریعہ نئی ملازمتیں تلاش کرنا  شرعاً ناجائز ہے،اور کمپنی یا ادارے کو ان تمام باتوں کی روک تھام کاحق حاصل ہے،البتہ  عرف میں ضرورت کے دائرے میں رہتےہوۓ  فون یا میسجز کرنے کی عموماً  ادارے کی طرف سے پابندی نہیں ہوتی تو ایسی صورت میں اگر ضرورتاً موبائل کا استعمال کرلیا جاۓ تو کوئی مضائقہ نہیں،باقی  نئی ملازمتیں کی تلاش اور اس نوعیت کےروابط دفتری طے شدہ  اوقات کے علاوہ میں سرانجام دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ 

[5(الف/ب)]اگر کوئی ادارہ  واقعۃً سوال میں ذکر کردہ خامیوں سے خالی ہو تو بلاوجہ اس ادارے کے خلاف طرح طرح کی باتیں بنانا شرعاًجائز نهيں ،البتہ اگر  واقعۃً کسی ادارےمیں ایسی کوئی خرابیاں ہو ں،جن سے ادارے کے کسی فردکو کسی بھی قسم کانقصان ہوسکتا ہو تو ایسی صورت میں ان باتوں سے لوگوں کو آگاہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ بسا اوقات ضروری ہے۔نیز بےجا کسی کے نقصانات بیان کرنا اگر چہ گناہ ہے، لیکن اس سے حلال طریقہ سےحاصل کی گئی کمائی پر کوئی  اثر نہیں پڑے گا۔

الدر مع الرد میں ہے:

‌"وليس ‌للخاص ‌أن ‌يعمل ‌لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل.(قوله ‌وليس ‌للخاص ‌أن ‌يعمل ‌لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(كتاب الإجارة،‌‌ باب ضمان الأجير، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة، ج: 6، ص: 70، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(وكذا) لا إثم عليه (‌لو ‌ذكر ‌مساوئ ‌أخيه ‌على ‌وجه ‌الاهتمام لا يكون غيبة إنما الغيبة أن يذكر على وجه الغضب يريد السب(قوله لا يكون غيبة) لأنه لو بلغه لا يكرهه لأنه مهتم له متحزن ومتحسر عليه، لكن بشرط أن يكون صادقا في اهتمامه وإلا كان مغتابا منافقا مرائيا مزكيا لنفسه، لأنه شتم أخاه المسلم وأظهر خلاف ما أخفى وأشعر الناس أنه يكره هذا الأمر لنفسه وغيره، وأنه من أهل الصلاح حيث لم يأت بصريح الغيبة، وإنما أتى بها في معرض الاهتمام فقد جمع أنواعا من القبائح نسأل الله تعالى العصمة."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ج: 6 ص: 408، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144612101484

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں