بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کے دوران مالک کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے باجماعت نماز چھوڑنے کا حکم


سوال

میں دکان میں ملازم ہوں اور مالک نے دکان میرے حوالے کی ہوئی ہے ،جس بناء پر میں مسجد نہیں پہنچ پاتا ہوں، کیوں کہ مالک اجازت نہیں دیتا ہے، میں نماز دکان میں ہی ادا کرتا ہوں اب اس صورت میں جماعت ترک کر سکتا ہوں؟ اور میرااسکے علاوہ ذریعہ آمدن بھی نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگرواقعۃً آپ کامالک آپ کومسجدمیں باجماعت نمازپڑھنے کی اجازت نہیں دیتاتومالک کے لیے اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ آپ کو باجماعت نماز کی ادائیگی سے منع کرے،لہذاآپ مالک سے بات چیت کرکے انہیں باجماعت نماز کی اجازت پر آمادہ کریں اور فرض نماز اور سنتِ مؤکدہ کی ادائیگی کا وقت طلب کریں ،مالک پربھی لازم ہے کہ وہ آپ کوفرض اور سنتوں کے لیے مسجد جانے کی اجازت دیں ،اگر مالک کسی صورت اجازت نہ دے تومذکورہ مالک سےکام چھوڑکرکسی دوسری جگہ روزگارتلاش کریں،جہاں آپ کوباجماعت نمازپڑھنےکی اجازت ہو۔

سنن نسائی میں ہے :

"أخبرنا سويد بن نصر قال: أخبرنا عبد الله، عن زائدة بن قدامة قال: حدثنا السائب بن حبيش الكلاعي، عن معدان بن أبي طلحة اليعمري قال: قال لي أبو الدرداء، أين مسكنك؟ فقلت: في قرية دوين حمص، فقال أبو الدرداء، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما من ‌ثلاثة ‌في ‌قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، فعليك بالجماعة فإنما يأكل الذئب القاصية» قال السائب يعني بالجماعة الجماعة في الصلاة ."

(‌‌التشديد في ترك الجماعة ج : 1 ص : 445 ط : مؤسسة الرسالة ،بيروت)

ترجمه :" ابو درداء  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد  ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے اور تم لوگ اپنے ذمہ جماعت سے نماز لازم کرلو ، کیوں  کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو کہ اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہوگئی ہو۔ حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے۔"

 حلیۃ الاولیاءوطبقات الاصفیاء میں ہے:

"عن علقمة، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كسب ‌الحلال فريضة بعد فريضة."

(ذكر طوائف من جماهير النساك والعباد ج : 7 ص : 126 ط : مطبعة السعادة)

الدر مع الردمیں ہے:

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة وعيد فشرط.

(قوله قال الزاهدي إلخ) توفيق بين القول بالسنية والقول بالوجوب الآتي، وبيان أن المراد بهما واحد أخذا من استدلالهم بالأخبار الواردة بالوعيد الشديد بترك الجماعة. وفي النهر عن المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة...وقال في شرح المنية: والأحكام تدل على الوجوب، من أن تاركها بلا عذر يعزر وترد شهادته، ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وقد يوفق بأن ذلك مقيد بالمداومة على الترك كما هو ظاهر قوله صلى الله عليه وسلم  «لا يشهدون الصلاة» وفي الحديث الآخر «يصلون في بيوتهم» كما يعطيه ظاهر إسناد المضارع نحو بنو فلان يأكلون البر: أي عادتهم، فالواجب الحضور أحيانا، والسنة المؤكدة التي تقرب منه المواظبة."

(كتاب الصلاة،باب الإمامة ج : 1 ص : 552  ط: سعيد)

حلبي کبیر میں ہے :

" وکذا الأحکام تدل علی الوجوب من أن تارکها من غیر عذر یعزر، وترد شهادته، ویأثم الجیران بالسکوت عنه، و هذہ کلها أحکام الواجب."

(، فصل في الإمامة ص : 509 ط : حكاكار چار شو سندھ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں