بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کو ریٹائرمنٹ کے وقت گریجویٹی فنڈ دینا لازم نہیں


سوال

 ایک کمپنی اپنےملازمین کو اپوائنٹمنٹ(تقرری)کےوقت یہ کہ دیتی ہےکہ کمپنی ملازم کو کسی بھی قسم کےفنڈز مثلا گریجویٹی فنڈ،جی پی فنڈوغیرہ نہیں دےگی،یہ بات کمپنی ہرملازم سےکرتی ہے،کیا کمپنی کےلیےملازمین سےاس طرح کاوعدہ لیناجائز ہے؟ اورعموما ملازمین اس بات پر رضامندی کا اظہارکرتےہیں۔

واضح رہےکہ یہ بات شروع ہی میں تقرر کرتےوقت ملازمین کو کہی جاتی ہے، جبکہ قانونا ملازمین کو کمپنی چھوڑتے وقت (ریٹائرمنٹ پر) گریجویٹی فنڈ  دینا لازم ہوتاہے،گویا کہ ملازمین کی طرف سےگریجویٹی فنڈ نہ لینے پر رضامندی اس وقت ہوتی ہے جبکہ یہ فنڈ ان کےحق میں ثابت بھی نہیں ہوتا۔

سوال یہ ہے کہ ایک ایسا ملازم جو کہ کمپنی سےشروع میں تقرری کےوقت تمام قسم کےفنڈز (جوریٹائرمنٹ پرکمپنی کےذمہ لازم ہوتےہیں) نہ لینے کی رضامندی کااظہار کر دےتو ایسے شخص کےلیے ریٹائرمنٹ  پرکمپنی سےگریجویٹی وغیرہ کامطالبہ کرناجائزہے؟

نیزواضح رہے کہ اگرچہ اس ملازم نےفنڈ نہ لینے پرکمپنی سے وعدہ کر رکھا ہے لیکن اگر یہ شخص ریٹائرمنٹ پرکمپنی کےخلاف کورٹ / عدالت میں چلا جائےتو عدالت اس کمپنی کو گریجویٹی فنڈز دینے کاحکم کرےگی۔

2۔  دوسراسوال یہ ہےکہ مذکورہ بالا صورت کےمطابق ایک شخص نے تقرری کے وقت کمپنی سے ریٹائرمنٹ پرفنڈنہ لینے کا وعدہ کیا تھا، 2014 میں پہلے مالک کا انتقال ہوگیا،کمپنی وراثت میں دوسرے شخص کے پاس آگئی، 2022 میں بندہ ریٹائر ہو اتو دوسرے مالک نے 2014 کےبعد کے سالوں کی گریجویٹی فنڈ دینے پر رضامندی ظاہر کی جبکہ اس سے پہلے تقریبا 20سال کی گریجویٹی دینے سے انکار کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ بندہ نے پہلے مالک سے گریجویٹی نہ لینے کا وعدہ کیا تھا،کیا اس وقت میرا 2014 سے پہلے والےسالوں کی گریجویٹی کامطالبہ کرنا  درست ہے؟

نیز 2014کے بعد کی گریجویٹی  لینا میرےلیےدرست اورجائزہے؟

کیاتقرری کے وقت کیا گیا وعدہ کی وجہ سے یہ اماؤنٹ میرےلئےمکروہ  یا  حرام تو نہیں ہوگی؟

نیز لف ڈاکومنٹ کی روشنی میں یہ واضح کیاجائے کہ شرعا 1995سے 2014 تک کی گریجویٹی کس کےذمے واجب ہو گی پہلے مالک کے یا دوسرے مالک کے؟ 

جواب

 واضح رہے کہ   کسی بھی ادارہ کی جانب سے  ملازم کی  ریٹائرمنٹ کے وقت   گریجویٹی فنڈ    کے نام سے جو  رقم دی جاتی ہے ،یہ رقم نہ ہی اس کی  تنخواہ کا حصہ  ہوتی، اور نہ ہی  دوران  ملازمت ملازم کی تنخواہ سے منہا کرکے جمع کی جاتی ہے، بلکہ یہ  ادارہ کی طرف سے ملازم کے لیے  تبرع و احسان ہوتا ہے، جس کی حیثیت  عطیہ و تحفہ کی  ہے، پس جس طرح سے  کسی کو تحفہ دینا لازم نہیں ہوتا، بلکہ کسی کو تحفہ دینے یا نہ دینے  کا تعلق دینے والے   کی صوابدید سے ہوتا ہے،بالکل اسی طرح سے  کسی بھی ادارہ پر اپنے ملازمین کو گریجویٹی فنڈ  دینا شرعا لازم نہیں ہوتا،  اور نہ ہی کسی ملازم کا  گریجویٹی ملنے سے قبل اس پر استحقاق ہوتا ہے، کہ وہ ادارہ سے گریجویٹی کا مطالبہ کرسکے، خصوصا جبکہ ملازمت سے قبل ہی گریجویٹی نہ دیئے جانے کا معاہدہ طے پایا ہو، لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ ادارہ کی نئی انتظامیہ اپنے ملازمین کو 2014 سے گریجویٹی فنڈ دینے پر  برضا و خوشی آمادہ ہو، تو ملازم گریجویٹی  وصول کر سکتا ہے، تاہم 2014سے پہلے سالوں کی گریجویٹی کے مطالبہ کا شرعا اسے حق نہیں ہوگا، تاہم کسی ملازم کو شرعا اس بات کا حق نہیں کہ وہ گریجویٹی کے حصول کے لیے ادارہ پر کسی بھی قسم کا دباؤ  ڈالے، اور  ادارہ کی رضامندی کے بغیر زبردستی گریجویٹی وصول کرے، ایسا کرنے کی  صورت میں ملازم کے لیے گریجویٹی وصول کرنا حلال نہ ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" أما تفسيرها شرعا فهي تمليك عين بلا عوض، كذا في الكنز.

وأما ركنها فقول الواهب: وهبت؛ لأنه تمليك وإنما يتم بالمالك وحده، والقبول شرط ثبوت الملك للموهوب له حتى لو حلف أن لا يهب فوهب ولم يقبل الآخر حنث، كذا في محيط السرخسي."

( كتاب الهبة، الباب الأول في تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها، ٤ / ٣٧٤، ط: دار الفكر )

درر الحكام في شرح مجلة الأحكاممیں ہے: 

" (المادة ٥٧: لا يتم التبرع إلا بقبض)

لا يتم التبرع إلا بقبض هذه القاعدة مأخوذة من الحديث الشريف القائل «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» على أنه لو كانت الهبة تتم بدون القبض لأصبح الواهب حينئذ مجبرا على أداء شيء ليس بمجبر على أدائه، وذلك مخالف لروح التبرع فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ١ / ٥٧، ط: دار الجيل )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ٤ / ٣٧٨، ط: دار الفكر )

شرح مشكل الآثار للطحاويمیں ہے:

"٢٨٢٣ - وكما حدثنا الربيع بن سليمان بن داود قال: حدثنا أصبغ بن الفرج قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل قال: حدثنا عبد الملك بن الحسن، عن عبد الرحمن بن أبي سعيد، عن عمارة بن حارثة، عن عمرو بن يثربي قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: " لا يحل لامرئ من مال أخيه شيء إلا بطيب نفس منه " قال: قلت يا رسول الله , إن لقيت غنم ابن عمي آخذ منها شيئا؟ فقال: " إن لقيتها تحمل شفرة , وأزنادا بخبت الجميش فلا تهجها " -

قال أبو جعفر: ففيما روينا إثبات تحريم مال المسلم على المسلم."

( باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الضيافة من إيجابه إياها ومما سوى ذلك، ٧ / ٢٥٢، ط: مؤسسة الرسالة )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406101423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں