بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کی مجبوری سے غلط فائدہ اٹھاکرکم تنخواہ دینے پر راضی کرنے کا حکم


سوال

ایک ذمہ دار کے ماتحت بہت سے لوگ رہتے ہیں اور ذمہ دار صاحب کی آمدنی حد سے زیادہ ہو رہی ہے، لیکن ذمہ دار صاحب اپنے ماتحتوں کو اتنی کم رقم مزدوری اور تنخواہ میں دیتا ہے کہ ماتحتوں کی ذمہ داریاں پوری نہیں ہورہی ہیں، واضح رہے کہ کبھی کوئی ملازم مجبوری میں یا پھر کسی پریشانی اور تنگ حالی میں باہمی معاہدے سے رضا مند بھی ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ذمہ دار صاحب کسی مجبور شخص کی مجبوری کا اچھا خاصا فائدہ اٹھا لیتا ہے ،لیکن بعد چل کر ہر کوئی اپنی ضروریات کے پیشِ نظر اس ذمہ دار کو الوداع کہہ دیتا ہے اور یہ سلسلہ بہت سالوں سے چلا آرہا ہے ،کہ کوئی آئے کوئی جائے یہ تماشا کیا ہے؟۔

سوال یہ ہے کہ اتنی کم رقم تنخواہ یا مزدوری دینا کہ ملازم اور مزدور کی ضروریات پوری نہ ہوں جائز ہے؟ اگرچہ باہمی رضا مندی سے ہی کیوں نہ ہو ؟ اسلامی نقطہ نظر سے اس ذمہ دار کا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اجارہ پر مشتمل عقد میں بنیادی طورپراجیر(ملازم )اور مستاجر(اجرت پر کام کروانےوالے)کے درمیان ابتداء ہی میں  کام، تنخواہ ،اوردیگر ذمہ داریوں کے بارے میں جو طے ہوجائے اسی کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں شرعی طورپراجیر(ملازم)اسی تنخواہ کا حق دارہے، جو ابتداء میں ہی مستاجر(اجرت پرکام کروانے والے)کے درمیان طے ہوجائے، تاہم ملازم کی مجبوری سے غلط فائدہ اٹھاکرکم تنخواہ کے عوض زیادہ کام لینا مناسب نہیں ہے، بل کہ ملازم کو عام بازارمیں رائج تنخواہ کے برابرتنخواہ دینا اوردیگرمراعات فراہم کرنا مستاجر(کام کروانے والے)کی شرعی واخلاقی ذمہ داری ہے،اس میں اخلاقی اقدارکی رعایت کے ساتھ ساتھ مفوضہ امورکی انجام دہی بہترطریقے سے ہوسکے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(قوله وشرطها إلخ)۔۔۔(قوله كون الأجرة والمنفعة معلومتين) أما الأول فكقوله بكذا دراهم أو دنانير وينصرف إلى غالب نقد البلد، فلو الغلبة مختلفة فسدت الإجارة ما لم يبين نقدا منها فلو كانت كيليا أو وزنيا أو عدديا متقاربا فالشرط بيان القدر والصفة۔۔۔وأما الثاني فيأتي في المتن قريبا (قوله ساعة فساعة) ؛ لأن المنفعة عرض لا تبقى زمانين، فإذا كان حدوثه كذلك فيملك بدله كذلك قصدا للتعادل، لكن ليس له المطالبة إلا بمضي منفعة مقصودة كاليوم في الدار والأرض والمرحلة في الدابة كما سيأتي."

(کتاب الاجارۃ ،شروط الاجارۃ ،ج:6،ص:5،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں