بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کے لیے سفر کا خرچ لینا


سوال

میں ایک دکان پر کام کرتا ہوں دکان دار مجھے دوسرے شہر بھیجتا ہے اور آنے جانے کا کرایہ بھی دیتا ہے،ٹرانسپورٹ والے مجھے جانتے ہیں،وہ کرایہ نہیں لیتے،  سوال یہ ہے کہ یہ رقم میرے  لیے رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں دکان کا مال آپ  کو جو رقم کرائے کی مد میں دیتا ہے،اگر دکان دار  کی طرف سے آپ کو یہ رقم سفر میں جتنا خرچ ہو صرف اسی  کے لیے دی جاتی ہے تو اس صورت میں آپ  کے لیے غلط  بیانی سے  خرچہ پیش کرکے  پیسہ وصول کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ جتنا آپ کا خرچ ہوا اتنا ہی لینا جائز ہوگا۔ ہاں  اگر اس مالکِ دکان کا  ضابطہ یہ ہو کہ سفر کا جتنا کرایہ  بنتا ہے وہ بہر حال دے دیتا، چاہے اتنا خرچ ہو یا نہ ہو تو  کرایہ کم خرچ ہونے یا بالکل ہی نہ ہونے  کی صورت میں مالکِ دکان سے یہ  کرایہ وصول کرنا جائز ہوگا، کیوں کہ اس  صورت میں یہ سفر خرچ  اجرت کے حکم میں ہوگا۔

الفتاوى الهندية (4 / 455):

"قَالَ: نَفَقَةُ الْمُسْتَأْجِرِ عَلَى الْآجِرِ سَوَاءٌ كَانَتْ الْأُجْرَةُ عَيْنًا أَوْ مَنْفَعَةً، كَذَا فِي الْمُحِيطِ."

البناية شرح الهداية (10 / 4):

"(ولقوله عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ) ش: أي ولقول النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، م: «كل صلح جائز فيما بين المسلمين إلا صلحًا أحل حرامًا أو حرم حلالًا» ش: الحديث رواه الترمذي عن كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني عن أبيه عن جده أن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قال: «الصلح جائز إلى آخره» وزاد الترمذي: «والمسلمون على شروطهم إلا شرطًا أحلّ حرامًا أو حرّم حلالًا»، وقال: حديث حسن صحيح."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں