بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کا ملازمت چھوڑنے کے بعد گریجویٹی فنڈ کامطاالبہ کرنا


سوال

ہمارا ایک دینی ادارہ ہے، جو ایک رجسٹر کے تحت قرآنی مکاتب، درسِ نظامی اور اسکول چل رہا ہے، جس میں بنیادی طور پر بچوں کی دینی تربیت کی جاتی ہے، ہمارا ادارہ غیر نفع بخش ادارہ ہےجس کا مقصد نفع کمانانہیں ہے، بلکہ امتِ مسلمہ کے بچوں کی اچھی تربیت کرناہے، اسی وجہ سے ہم بہت سے بچوں کو فری میں تعلیم اور اسپانسرشپ بھی دیتے ہیں،  جس میں مخیر حضرات ہماراتعاون فرماتےہیں،ہمارے ادارے میں جب کسی ملازم کاتقرر کیاجاتاہے تو اس کی تنخواہ اور سالانہ چھٹیاں وغیرہ اس ملازم کو بتادی جاتی ہے، اوراس کی رضامندی بھی حاصل کرلی جاتی ہے، جس میں کہیں بھی گریجویٹی یاپراویڈنٹ فنڈ کاکوئی تذکرہ نہیں ہوتا اورنہ ہی اس کو جوپےسلپ دی جاتی ہے، اس میں گریجویٹی پا پراویڈنٹ فنڈ کی کٹوتی کا تذکرہ ہوتاہے، اور واضح طور پر اس کو بتادیاجاتاہے کہ ہمارے ادارے میں گریجویٹی پا پراویڈنٹ فنڈ نہیں ہے۔

گریجویٹی یاپراویڈنٹ فنڈ نہ دینے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں :

1-عموماً ہمارا بجٹ خسارے میں ہوتاہے اور بسا اوقات تنخواہیں دینا مشکل ہوجاتاہے۔

2-فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے تعمیراتی کا م روکے ہوئے ہوتے ہیں ۔

3-ادارےکی یہ بھی کوشش ہوتی ہےکہ فیس نہ دینے کی وجہ سے بچوں کو پڑھائی سے محروم نہ کرے۔

مندرجہ بالا وجوہات کی بنیاد پر وہ عملاًرضامندی ظاہر کرتے ہوئے کام شروع کردیتاہے،اور کہتاہے کہ میں دین کی خدمت کرنا چاہتاہوں اور دینی ادارے سے منسلک ہونا چاہتاہوں،اس دورانِ ملازمت میں وہ ہم سے گریجویٹی یاپراویڈنٹ فنڈ کا مطالبہ نہیں کرتا،لیکن جب وہ ملازمت سے استعفیٰ دیتاہےیا ادارہ اس سے معذرت کرتاہےتو وہ معذرت قبول نہیں کرتا تو اس وقت وہ ادارے سے گریجویٹی یاپراویڈنٹ فنڈ کا مطالبہ کرتاہے۔

اس سلسلے میں ہم نے قانونی ماہرین سے خدمت حاصل کی تو انہوں نے بتایا کہ ادارےپر گریجویٹی یاپراویڈنٹ فنڈ دینا لازم نہیں ہے،جس کی تحریر منسلک ہے،چوں کہ ہم نے طے کرلیا ہے کہ ہم اپنے مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں حل کریں گے،تو اس تناظر میں سوال یہ ہےکہ اس صورتِ حال میں ادارہ اپنے ملازمین کو اس اجتماعی رقم سے جو کہ چندے یعنی امانت کی رقم ہےگریجویٹی یاپراویڈنٹ فنڈ دینا ضروری ہے اورنہ دینے پر گناہ گار تو نہیں ہوں گئے؟

اور اگر اس کے بعد یہ معلوم ہو کہ قانونی ماہرین کی بات غلط تھی اور ہمارے ادارے کو اپنے ملازمین کو گریجویٹی یاپراویڈنٹ فنڈ دینا ضروری ہےتو کیا وہ رقم ادارے کے ذمے شرعاً واجب الاداء ہوگی اور وہ رقم ملازمین کے حق میں ادارے کے ذمے دین قائم ہوگااور ملازم کاہم سے اس رقم کا مطالبہ کرنا ٹھیک ہوگا؟

اور بعض دفعہ ملازمین تنگ کرتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں تو ادارہ دفع شر کےلیے اس ملازم کو کچھ دے دیتاہے تو اس کےلیے وہ رقم لینا جائز ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب ادارہ اپنے ملازم کو شروع ہی میں یہ بتادیتا ہے کہ اس ادارے میں گریجویٹی یا پراویڈنٹ فنڈ نہیں دیاجاتا ہےتو اس ملازم کا خود استعفیٰ دینےسے یا ادارہ اس سے معذرت کرلے دونوں صورتوں میں ادارے پر اپنے ایسے ملازم کو گریجویٹی یا پراویڈنٹ فنڈ دینا ضروری نہیں ہے،لہٰذا  اگر  کوئی ملازم اس کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کا یہ مطالبہ جائز نہیں ہےاسی طرح اگر ملازم تنگ کرتاہے یا دھمکیاں دیتاہے تب بھی ادارےکےلیے کسی ملازم کو  گریجویٹی یاپراویڈنٹ فنڈ دینا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی مخیر آدمی کو کہہ کر اس استاد کےلئے کچھ انتظام کردیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها أن تكون ‌الأجرة ‌معلومة. ومنها أن لا تكون الأجرة منفعة هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة. ومنها خلو الركن عن شرط لا يقتضيه العقد ولا يلائمه."

(کتاب الاجارۃ،الباب الاول تفسیرالاجارۃ،ج:4،ص:41،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں