بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 محرم 1447ھ 11 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

ملازم کا کم قیمت میں معاملہ کرکے زیادہ رقم کا بل بنوانا


سوال

ہماری  ایک اسٹیشنری او ر پرنٹنگ کی دکان ہے،الحمدللہ ہم کافی عرصہ سے یہ کام کررہے ہیں،حال ہی  میں ہمیں ایک اسکول کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا،   جس میں ایک ملازم نے ہمیں متعارف کروایا، اور ہمیں اسکول کے منظور شدہ وینڈرز میں شامل کروادیا،یہ اسکول اس وقت ہمارے کاروبار کا سب سے بڑا اور اہم کلائنٹ ہے۔

مسئلہ یہ درپیش ہے کہ وہ ملازم جس کے ذریعے سے ہم اسکول سے منسلک ہوئے ہیں، ہم سےیہ  مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی اصل قیمت سے  زیادہ  رقم کا بل بنائیں،اضافی  رقم جو کہ اس کا کمیشن ہے،وہ اسے واپس کی جائے،مثال کے طور پراگر ہم انہیں کوئی چیز 10 روپے میں فراہم کررہے ہیں تو وہ ہم سے کہتا ہے کہ بل میں 15 روپے درج کرکے 5 روپے نقد   مجھے واپس کردیں،ہم نے اس کو یہ پیشکش بھی کی کہ وہ ہم سے سامان لے کر خود اپنی مرضی کا بل بناکر اسکو ل کو دے دےتاکہ شفافیت برقرار رہےاور ہمیں اضافی رقم نہ دینی پڑے،مگر اس نے ہماری ایک بات بھی نہیں سنی اور صاف انکار کردیا،اور اس کا یہ  کہنا ہے کہ اگر ہم نے اس کی یہ شرط نہ مانی تو وہ کسی اور سپلائر سے سامان لینا شروع کردے گا۔

اس صورت حال میں  چونکہ یہ اسکول ہمارے کاروبار کے لیے انتہائی اہم ہے،اسے چھوڑنا ہمارے لیے شدید کاروباری نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

برائے کرم ہم شرعی رہنمائی چاہتے ہیں کہ کیا اس طرح سے بل میں اضافی رقم دکھا کر اس ملازم کو کمیشن دینا ہمارے شرعا جائز ہےیا نہیں؟کیا یہ لین حرام ہے  یا حلال؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ  ادارہ کے ملازم کے کہنے کی وجہ سے سائل کے لیے زیادہ قیمت کھاتے میں لکھ کر بل بنانادراصل جھوٹی شہادت ہےجوکہ حرام اور سخت گناہ ہے،اسی طرح مذکورہ ادارہ کی جانب سے مقرر شخص کے لیے جعلی بل بنواکر زائد رقم وصول کرنا بھی ناجائز اور حرام ہونے کے ساتھ اپنے مالک یا ادارہ کے ساتھ بے وفائی بھی ہے،لہذا گاہک(مذکورہ اسکول)کےساتھ خیر خواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ سائل اسکول مالکان کو تمام تر ثبوتوں کے ساتھ حقائق سے آگاہ کردے،اور کاروباری نقصان کے اندیشہ کے پیش نظر مذکورہ جعل سازی کا حصہ بنناہر گز جائز نہیں ہوگا،ملحوظ رہے کہ رزق دینے والی  ذات اللہ رب العزت کی ذات عالی ہے،اس پر کامل بھروسہ رکھا جائے،اور دھوکہ دہی کا ہر گز  حصہ نہ بناجائے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ"

 (سورۃ المائدۃ :3)         

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى: {وتعاونوا على البر والتقوى} يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان طاعة لله تعالى; لأن البر هو طاعات الله. وقوله تعالى: {ولا تعاونوا على الأثم والعدوان} نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى"

(سورة المائدۃ، ج:3، ص:296 ط:داراحیاء تراث العربی)

صحیح بخاری میں ہے:

عن انس رضي الله عنه، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الكبائر؟ قال:" الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، وشهادة الزور"

(کتاب الشھادات،باب ما قيل في شهادة الزور، ج:3، ص:504، ط:دار التاصیل)

ترجمہ:

"انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا"

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد اللہ بن مسعود قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من غشنا فلیس منا والمکر والخداع في النّار."

(كتاب البيوع، باب الغش، ج:4، ص:139، ط: دار الفكر)

"ترجمہ:سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے اور مکر و فریب آگ (کا سبب) ہے۔"

مسندامام  احمد میں ہے:

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."

ترجمہ:

آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:مؤمن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔

(ج: 36، ص: 504، رقم الحدیث: 22170، ط: مؤسسة الرسالة)

البحرائق الرائق میں ہے:

"‌إذ ‌لا ‌يجوز ‌لأحد ‌من ‌المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي"

(کتاب الحدود،فصل فی التعزیر، ج:5، ص:44، ط: دار الکتب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612101489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں