میں ملک سے باہر ایک ریسٹورینٹ میں نوکری کرتا ہوں، یہاں پہ تنخواہ گھنٹوں کے حساب سے ملتی ہے، میرے مالک نے میری تنخواہ فکس کی ہوئی ہے جب کہ کئی بار مجھے کام زیادہ کرنا پڑتا ہے، جب مالک سے میں نے کہا کہ آپ مجھے تنخواہ 55 گھنٹوں کی دیتے ہیں اور کام 80 گھنٹے کرنے کا کہتے ہیں تو ان کا جواب ہے کہ آپ اتنے گھنٹے کام نہ کرو، (لیکن یہ بات صرف تنخواہ کے وقت کرتے ہیں)، جب بھی کوئی دوسرا بندہ کام پہ نہیں آتا یا کام زیادہ ہوتا ہے تو مجھے کہتے ہیں آپ کام کرو، نہیں تو چھٹی کرو، تو کیا میں جتنے گھنٹے میں کسی اور کی جگہ کام کرتا ہوں وہ اس بندے کے نام سے لکھ کر پیسے خود لے سکتا ہوں؟ کئی بار 20 سے 25 گھنٹے ایک ہفتے میں میرے طے شدہ گھنٹوں سے زیادہ ہوتے ہیں؟
کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے، کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور اجیرِ خاص ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ) کا مستحق ہوتا ہے، اور چوں کہ ملازمین کی ملازمت کا ایک خاص وقت متعین ہے، اور اسی وقت کا انہیں معاوضہ دیا جاتا ہے، اس متعین وقت کے بعد ملازم کا بلامعاوضہ اضافی کام کرنا ملازم کی طرف سے ایک احسان ہے، جس پر ملازم کو شرعی اعتبار سے مجبور کرنا جائز نہیں ہے۔ ذمہ داران کو چاہیے کہ یا تو اضافی وقت کا معاوضہ متعین کریں، یا پھر ملازمین کو بلا جبر کام کرنے کا اختیار دیں۔
صورتِ مسئولہ میں اگر اضافی کام آپ کی ملازمت کی مفوضہ ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہیں، بلکہ ملازمت کے طے شدہ اوقات سے زیادہ ہے تو مالک سے کام کرنے سے پہلے باقاعدہ اجرت طے کرکے ان سےطے شدہ اجرت لے سکتے ہیں۔ پہلے سے اجرت طے کیے بغیر یا غلط بیانی کرکے معاملہ کرنا درست نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.
(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة".
(6/70، کتاب الاجارۃ، ط؛ سعید)
شرح المجلۃ میں ہے:
"لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
(1/264، مادۃ: 97، ط؛ رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109201071
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن