بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کا کمپنی کے لیے خریداری کرتے ہوئے فروخت کنندہ سے کمیشن لینا


سوال

 میں ایک نیم سرکاری کمپنی میں بطور ایڈمن آفیسر کام کرتا ہوں۔ جہاں پر مجھے مختلف قسم کے کام وغیرہ کرنےہوتے ہیں، جبکہ ہمارے کاموں کی نوعیت فکس نہیں ہوتی، جیسے: کسی آفیسر یا ورکر کے مسائل کو حل کرنا، اب مسئلہ  کچھ بھی ہوسکتا ہے،  جیسے :اس کے رہائش  ، ٹرانسپورٹ، پانی ، بجلی ، گیس، اسپورٹس ، انٹرٹینٹ وغیرہ وغیرہ ۔ نیز کسی بھی آفس میں   کسی بھی قسم کا کام ہوسکتا ہے،  اب ان تمام کاموں کو  مکمل کرنے کے لے کمپنی میں  بے  تحاشا کونٹریکٹر رکھےہوئے  ہیں ،جن سے ہم بارکینگ کرتے ہیں کہ فلاں  کام کرنا ہے، کتنے میں کروگے، جو سستے میں راضی ہو جائے، اس سے کنٹریکٹ کرلیتے ہیں، چاہے  کام بڑا ہو یا چھوٹا۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ کمپنی میں آفیسر کے لے منرل  واٹر کی روزانہ کی بنیا د پر ضرورت ہے،  تو کمپنی نے  مجھے کہا  کہ کسی سے بات کروکہ  کو ن راضی ہو ہمیں سپلائی  دینے کے لے، مختلف کونٹریکر سے بات چیت چلی، کسی نے کوئی  ریٹ دیا کسی نے کوئی  ریٹ دیا،  مگر ابھی تک ہم کسی سے فائنل نہیں کرسکے، لیکن میں نے ذاتی طور پر ا یک باہر  کے کونٹریکٹر سے بات کی کہ آپ ہمیں   منرل  واٹر سپلائی  کریں۔ ماہانہ  بنیاد  پر  220 پر ، جس میں سے 20 روپے میرے ہونگے،  جس پر وہ راضی ہیں  ، اب کیا میں وہ کنٹریکٹ اس کو دلا کرجو کمیشن ہے  وہ رکھ سکتاہوں،  کمپنی نے مجھے 220 کو کہا تھا، جبکہ میں وہ 20 روپے کنٹریکٹر سے لوں گا، کمپنی سے نہیں ،کمپنی کو وہ اتنے  میں ہی ملے گی، 220  کا اس نے مجھے کہا تھا،  اس طرح بہت سارے کنٹریکٹ یہاں بنتے ہیں،  جس پر میں کنٹریکٹر سےکمیشن لینا چاہتا ہوں ،لیکن کمپنی کو کوئی  نقصان  نہیں  ہوگا،  کیونکہ کمپنی کو اسی ر یٹ جس پر وہ چاہتی ہے  چیز مل جاے گی۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں سائل جس  کمپنی میں ملازم ہے اور کمپنی کی طرف سے مختلف نوعیت کے کام کرنے پر مامور ہے ،جن میں مذکورہ کام (پانی ) بھی شامل ہے  اور اس کام کی تنخواہ بھی وصول کرتا ہے ، لہذا سائل کے لیے کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز نہیں، نیز سائل اپنی کمپنی کی طرف سے منرل واٹر کے خریدنے  کا وکیل بھی ہے اور وہ شخص جس کو کسی نے مال خریدنے کے حوالہ سے اپنا وکیل بنا کر بھیجا ہو،  اس کے لیے قیمتِ خرید سے زائد کے واؤچر بنوا کر اپنے موکل (اصل خریدار) سے بطورِ  کمیشن وصول کرنا بھی جائز نہیں، اسی طرح بائع سے بھی کمیشن لینا جائز نہیں کیوں کہ کمپنی کا ملازم ہے اور تنخواہ بھی لیتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"تتمة: قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم، وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدًا؛ لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام،   وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجًا ينسج له ثيابا في كل سنة." 

( کتاب الاجارۃ باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد 6 / 63 / ط : دار الفکر بیروت )

و فیہ ایضا:

وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية  قوله (فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له ۔

( کتاب البیوع جلد 4 / 560 / ط : دار الفکر بیروت )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں