بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کا کمپنی کی ذاتی معلومات دوسروں کو فراہم کرنے کا حکم


سوال

 ایک صاحب کو جن دنوں وہ بیروزگار تھے، اور مالی طور پر کافی پریشان تھے، ایک صاحب کی معرفت  سے سیلز کے کام پر رکھا، کمپنی جو پروڈکٹ بنارہی ہے اس کی مکمل آگاہی دی،    کمپنی کی پروڈکٹ جن شعبہ جات میں استعمال ہوتی ہے، اس کی مکمل آگاہی دی، کمپنی کے پاس جو گاہکوں کی لسٹ تھی وہ ان کو دی، کمپنی نے اپنے خرچہ پر موبائل خرید کر دیا، کمپنی نے اپنے نام کا موبائل نمبر ان کے سیلز کے کام کے لئے دیا۔    

کام کے دوران کمپنی کے علم میں آیا کہ یہ پروڈکٹ کی معلومات اور کسٹمر کی معلومات باہر دے رہے ہیں، کمپنی کے کہنے پر  جب بھی کسی پارٹی سے ملاقات کے لئے جاتے، تو رجسٹر میں ان کی مکمل تفصیل کے ساتھ سب کچھ لکھ لیتے، اور ایک دن ایسا ہوا کہ کام پر نہیں  آئے، اب  وہ کمپنی کے لوگوں سے ذاتی طور پر رابطے کرکے ٹیکنکل معلومات لے رہے ہیں، کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟وہ کمپنی کو اس کا موبائل واپس نہیں کررہے،  کیا یہ عمل درست ہے؟وہ کمپنی کو اس کے کسٹمرز کا ڈیٹا ، واٹس اپ ڈیٹا نہیں دے رہے،   کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس شخص کو کمپنی نے اس کی ضرورت کے وقت بطورِ سیلز کام پررکھا تھا، اور اس پر اعتماد کرکے اسےاپنی کمپنی کی پروڈکٹ کی معلومات فراہم کی تھیں، اور اس کے علاوہ بھی کمپنی نے ہر قسم کی معلومات و سہولیات فراہم کیں، جس کے بدلہ میں اس نے  کمپنی کو دھوکا  دیا، کمپنی کی مکمل معلومات دیگر لوگوں کو فراہم کیں،یہ کمپنی کے ساتھ خیانت اور دھوکا  دہی ہے،   شرعاً اس کا یہ عمل درست نہیں ہے، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص نے ہمیں دھوکا  دیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘، اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ :’’مومن ہر خصلت  پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے‘‘۔

لہذا مذکورہ شخص کو چاہیے کہ وہ کمپنی کی تمام تر معلومات، کسٹمرز ڈیٹا، واٹس ایپ ڈیٹا، پروڈکٹ بنانے کے طریقےتمام تر واپس کمپنی کے حوالہ کردے، اور کمپنی نے کام کےلیے جو موبائل اور اپنا نمبر اسے دیا تھا، وہ بھی واپس کمپنی کے حوالہ کردے۔

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن عمر وأبي هريرة رضي الله عنهم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ’’من حمل علينا السلاح فليس منا‘‘ . رواه البخاري وزاد مسلم: ’’ومن ‌غشنا فليس منا‘‘."

باب الدیات، باب ما يضمن من الجنايات، الفصل الاول، رقم الحدیث: 3520، ج: 2، ص: 1045، ط:ا لمكتب الإسلامي)

مسندِ احمد بن حنبل میں ہے:

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب." 

(تتمة مسند الأنصار، حديث أبي أمامة الباهلي .... عن النبي صلى الله عليه وسلم، رقم الحدیث: 22170، ج: 36، ص: 504، ط:  مؤسسة الرسالة)

مسلم شریف کی ایک حدیث میں خیانت کو منافق کی علامات میں سے شمار کیا گیا ہے:

" آية المنافق ثلاث وإن صام وصلى وزعم أنه مسلم: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان." 

 ترجمہ:’’منافق کی تین نشانیاں ہیں، اگر چہ وہ روزہ رکھے نماز پڑھے اور یہ گمان کرے کہ وہ مسلمان ہے: ایک یہ کہ جب بولے تو جھوٹ بولے  ، دوسرے یہ کہ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، تیسرے یہ کہ جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘

( کتاب الایمان، باب بيان خصال المنافق، رقم الحدیث: 59، ج: 1، ص: 78، ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں