بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کا کمپنی کے لیے خریداری میں بائع سے کمیشن لینا


سوال

 یہ مسئلہ تو واضح ہے کہ وکیل بالشراء اپنے موکل سے اجرت لیتا ہے ؛لہذا اس کے لیے کمیشن لینا جائز نہیں ہے، لیکن اگر درج ذیل صورت ہو تو کیا اس کے لیے کمیشن لینے کی گنجائش ہے؟ 

ایک شخص کسی کمپنی میں پرچیز مینیجر ہے اور کمپنی سے اس کو ماہانہ تنخواہ ملتی ہے وہ کافی مدت سے ایک بائع سے خریداری کررہا ہے، اچھے تعلقات کی وجہ سے بائع نے کہا کہ میں آپ کو کمیشن دوں گا ؛لیکن سامان کی جو رقم طے کی جاتی ہے اس کے اندر سے کمیشن کاٹ کر وکیل بالشراء کو نہیں دیا جائے گا ،بلکہ زائد رقم بائع اپنی طرف سے بطور ہدیہ ایک فیصد کمیشن دےگا ۔ اب سوال یہ ہے کہ  آیا اس پرچیز مینجر کے لیے اس طرح کمیشن لینا جائز ہے ؟ اور اگر وہ کمیشن لیتا ہے تو کیا اس کی اطلاع اپنے موکل کو دینا ضروری ہے ؟ اگر مذکورہ بالا کمیشن لینا جائز نہیں ہے، لیکن وہ لے چکا ہے تو اس کے ازالہ کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں پرچیز منیجر کمپنی کا ملازم ہے اور کمپنی سے اس کی تنخواہ متعین ہے ،اور کمپنی کے لیے خریداری کرتا ہے تو  اس حیثیت سے پرچیز  منیجر کمپنی کا وکیل بالشراء ( خریداری کا وکیل)  ہوا،اور وکیل امین (امانت دار) ہوتا ہے جس کے ذمے تمام معاملات کی آگاہی اپنے مؤکل  کو دینا ہوتی ہے،نیز  جب  ملازم اپنے عمل کا معاوضہ اپنی اجرت کی صورت میں بھی لیتا ہے؛ لہذا ملازم  اپنے کام کی  جو اجرت  مالک سے  لے رہا ہے، اس کے علاوہ خفیہ طور پر بائع  سے کسی عنوان سے   کمیشن وصول کرنا رشوت ہے جو کہ ناجائز ہے۔ تاہم اگر ملازم( پرچیز منیجر)  اپنے مالک( ٰکمپنی )کے علم میں لاکر یہ عمل کرلے اور کمپنی  اسے اجازت دے دے تو یہ صورت جائز ہےاور اس سے پہلے کمپنی کی اجازت کے بغیر  جتنا کمیشن وصول کرلیا ہے تو اتنی رقم متعلقہ آدمی کو واپس کردے ۔

سنن ابو داؤد میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌الراشي والمرتشي."

(کتاب الاقضیۃ، باب فی کراہیۃ الرشوۃ، ج:3، ص:300،رقم الحدیث: 3580، ط:المکتبۃ العصریۃ )

فتح القدیر میں ہے:

"وفي شرح الأقطع: ‌الفرق ‌بين ‌الرشوة والهدية أن الرشوة يعطيه بشرط أن يعينه، والهدية لا شرط معها."

(کتاب ادب القاضی،ج:7،ص:272،مطبعة مصطفي بابي حلبي)

درر الحکام میں ہے :

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل۔۔۔۔لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".

(الکتاب الحادی عشر الوکالۃ،ج:3،ص:573،دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں