بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کے بینک میں رکھے ہوئے پیسوں پر اضافی رقم ملنے کا حکم


سوال

میں گورنمنٹ کا  ملازم ہوں، بینک نے سال کے اختتام پر میری بینک میں پڑی ہوئی رقم سے کچھ ہزار اضافی دے دیے، کیا یہ جائز ہے، اگر نہیں تو میں اس رقم کا کیا کروں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی بینک میں رکھی  ہوئی رقم  پر جواضافی رقم  ملی ہے وہ سود ہے، اس کا لینا جائز نہیں ہے ، اگر  لے لی ہو تو فقراء پر بلا نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے، خود اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا."

(‌‌كتاب البيوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض  جر نفعا حرام، ج:5، ص:165، ط:سعيد)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب  الغصب ،ج:3، ص:61،  ط:دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101111

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں