میں گورنمنٹ کا ملازم ہوں، بینک نے سال کے اختتام پر میری بینک میں پڑی ہوئی رقم سے کچھ ہزار اضافی دے دیے، کیا یہ جائز ہے، اگر نہیں تو میں اس رقم کا کیا کروں؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کی بینک میں رکھی ہوئی رقم پر جواضافی رقم ملی ہے وہ سود ہے، اس کا لینا جائز نہیں ہے ، اگر لے لی ہو تو فقراء پر بلا نیت ثواب صدقہ کرنا ضروری ہے، خود اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا."
(كتاب البيوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:165، ط:سعيد)
الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:
"والملك الخبيث سبيله التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."
(كتاب الغصب ،ج:3، ص:61، ط:دارالفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507101111
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن