بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم اور گھر کی خادمہ کو تادیبا مارنا


سوال

کیا مالک اپنے ماتحت ملازم اورگھر  کی خادمہ کو  تادیباً مار سکتے ہیں یانہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے اپنے متبعین اور پیروکاروں کو ہمیشہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ شفقت، محبت، حسن سلوک اور اچھے برتاؤ  کی ترغیب دی  ہے ،  کسی شرعی وجہ کے بغیر ان کو مارنا یا ان کے ساتھ بُرا برتاؤ کرنا شرعا ناجائز ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مالک  کو اپنے     ملازم یا گھر کی خادمہ کو مارنے کا شرعاً حق حاصل نہیں ہے، اسے چاہیے کہ ان کی تادیب کے لیے وعظ ونصیحت کی راہ اختیار کرے، اگر ان کے کام سے مطمئن نہ ہو، تو ان سے معذرت کر کے کسی دوسرے مناسب ملازم کا انتظام کرے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌واصل الأحدب، عن ‌المعرور قال: «لقيت أبا ذر بالربذة وعليه حلة، وعلى غلامه حلة، فسألته عن ذلك، فقال: إني ساببت رجلا فعيرته بأمه، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم: يا أبا ذر أعيرته بأمه؟ إنك امرؤ فيك جاهلية، ‌إخوانكم ‌خولكم، جعلهم الله تحت أيديكم، فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل، وليلبسه مما يلبس، ولا تكلفوهم ما يغلبهم، فإن كلفتموهم فأعينوهم»."

[كتاب الإيمان، ج:1، ص:15، ط:دار طوق النجاة]

مسند البزار میں ہے:

"عن عمار بن ياسر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من رجل يضرب عبدا له ‌إلا ‌أقيد ‌منه يوم القيامة»."

[أول مسند عمار بن ياسر، ج:4، ص:236، ط: مكتبة العلوم والحكم]

الدر مع الرد میں ہے:

"وضرب عبيد الغير جاز بأمره … وما جاز في الأحرار والأب يأمر (قوله والأب يأمر) جملة حالية أي لا يجوز ضرب ولد الحر بأمر أبيه."

[کتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:430، ط:سعيد]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں