بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کے لیے زكاة لینے کا حکم


سوال

ایک ملازم کی تنخواہ 2لاکھ روپے ہے اور25تاریخ تک ضروریات میں تمام پیسے خرچ ہوتے ہیں کیا بقیہ 5دن یہ مستحق زکوٰۃ ہوگا یا نہیں؟  وضاحت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

جواب

واضح رہے کہ زکوۃ کا مصرف وہ مستحق ہے جس كے پاس استعمال اور ضرورت سے زائد بقدرِ نصاب ( ساڑے سات تولہ سونا يا ساڑھے باون تولہ چاندی يا اس کی مالیت ) نہ ہو  اور وه سيد ہاشمی نہ ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب ملازم کی تنخواہ اس کی ضروریات میں خرچ ہوجائے اور وہ مہینے کے آخر میں مستحقِ زکاۃ بن جائے تو اس کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، زکاۃ دینے والوں کی زکاۃ ادا ہوجائے گی۔

لیکن یاد رہے کہ زکاۃ لوگوں کے مال کا میل ہے، جس شخص کو ماہانہ دو لاکھ روپے تنخواہ مل رہی ہو وہ اس میں بڑی سہولت سے مہینہ گزار سکتا ہے، لہذا مذکورہ شخص کو چاہیے کہ وہ سادگی کے ساتھ زندگی گزارے، تاکہ زکاۃ لیے بغیر وہ زندگی گزار سکے۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:  

"(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير." 

(کتاب الزکوۃ ، الباب السابع فی المصارف ج: 1 ص: 187ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101473

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں