بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کا کمپنی کواطلاع دیئے بغیرملازمت چھوڑنا


سوال

ہمارے ایک ملازم جن کے ذمہ ہمارے کسٹمرز کو خدمات(services)دینا تھا،ان کا مزیدہمارے ساتھ ملازمت جاری نہ رکھنے کا ارادہ ہوا، لیکن چھوڑنے سے پہلے انہوں نے ذاتی طورپر اپنی خدمات ہمارے موجودہ کسٹمرکوپیش کیں، اور  کسٹمرنے ہمارے چلتے ہوۓ معاہدے ہمیں اطلاع کے بغیرختم کرکے ان سے کام شروع کردیا۔

پوچھنا یہ ہے کہ ہمارے  ملازم کا یہ فعل شرعاًدرست تھا؟دوسرایہ کہ ہمارے اس کسٹمر کا ہمارے ادارے کو پیشگی اطلاع کے بغیر براہ راست ان سے معاملات طے کرنا درست تھا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے ملازم کا آپ کو مطلع کیے بغیر ملازمت چھوڑنے کے بعدآپ کے کسٹمرز کو ذاتی طورپر اپنی طرف سے  خدمات پیش کرنا درست نہیں ہے ،کیوں کہ اس میں آپ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور کسی بھی مسلمان کو ضرر اور نقصان پہنچانا جائز نہیں،اسی طرح آپ کے کسٹمر کا آپ کو بتائے  بغیرچلتے ہوئے معاہدے کو ختم کرنادھوکہ دہی کی بنیاد پر درست نہیں ہے،البتہ  کسٹمرکاملازم سے معاملات طے کرناشرعاًاس میں کوئی حر ج نہیں ہے۔

قرآن کریم میں باری تعالي کا ارشاد ہے:

"وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۚ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا."(سورة الاسراء:34)

ترجمہ:"اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن بلوغت کو پہنچ جاوے اور عہد (مشروع) کو پورا کرو بےشک (ایسے) عہد کی باز پرس ہونے والی ہے۔"

صحیح البخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (‌آية ‌المنافق ‌ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا اؤتمن خان، وإذا وعد أخلف)."

(كتاب الشهادات، باب: من أمر بإنجاز الوعد، ج:2، ص:952، ط: دار ابن كثير، دار اليمامة) - دمشق)

تفسیرالطبری میں ہے:

"(‌وأوفوا ‌بالعهد) يقول: وأوفوا بالعقد الذي تعاقدون الناس في الصلح بين أهل الحرب والإسلام، وفيما بينكم أيضا، والبيوع والأشربة والإجارات، وغير ذلك من العقود (إن العهد كان مسئولا) يقول: إن الله جل ثناؤه سائل ناقض العهد عن نقضه إياه، يقول: فلا تنقضوا العهود الجائزة بينكم، وبين من عاهدتموه أيها الناس فتخفروه، وتغدروا بمن أعطيتموه ذلك. وإنما عنى بذلك أن العهد كان مطلوبا، يقال في الكلام: ليسئلن فلان عهد فلان."

(تفسيرسورة الإسراء، الأية:34، ج:17، ص:444، ط: دار التربية والتراث - مكة المكرمة)

تفسیر خازن میں ہے:

"‌وأوفوا ‌بالعهد أي الإتيان بما أمر الله به والإنتهاء عما نهي عنه وقيل: أراد بالعهد ما يلتزمه الإنسان على نفسه إن العهد كان مسؤلا أي عنه وقيل مطلوبا وقيل: العهد يسأل فيقال فيم نقضت كالموءودة تسأل فيم قتلت."

(سورة الإسراء (17): الآيات 26 الى 38، ج:3، ص:129، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں