بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملاقات پر سلام کے بعد مصافحہ کرنا


سوال

هر ملاقات پر بعد سلام، مصافحه كرنا صحابه سے ثابت هے يا نهيں؟

جواب

ملاقات کے وقت سلام کرنا سنت اور مصافحہ کرنا مستحب ہے، اور حدیث شریف میں مصافحہ کو سلام کی تکمیل قرار دیا گیا ہے، جہاں ہر ملاقات پر مصافحے کو سنت لکھا گیا ہے اس سے مراد مستحب ہی ہے، لہٰذا ہر ملاقات کے وقت سلام کے ساتھ مصافحہ پسندیدہ ضرور ہے، لیکن لازم نہیں ہے، اور اسے لازم سمجھنا بھی غلط ہے، البتہ مصافحے کے بہت فضائل احادیثِ مبارکہ میں آئے ہیں اس لیے لازم سمجھے بغیر سلام کے ساتھ مصافحہ بھی کرنا چاہیے، احادیثِ مبارکہ میں رسولِ کریم ﷺ کا اپنا معمول مصافحہ کرنے کے سلسلہ میں یہ وارد ہے کہ آپ ﷺ مصافحہ کے وقت اس وقت تک اپنا دستِ مبارک نہ کھینچتے تھے جب تک کہ سامنے والا خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لیتا۔ مصافحہ کرنا جس طرح نبی کریم ﷺ کا معمول تھا، اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس کا اہتمام فرماتے تھے۔ مصافحہ کرنا نہ صرف سلام کی تکمیل ہے، بلکہ صحیح روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس عمل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دو مسلمانوں کے گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ترمذی شریف کی  چند روایات ذیل میں درج کی جاتی ہیں:

"عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِك قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَقْبَلَهُ الرَّجُلُ فَصَافَحَهُ لَايَنْزِعُ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّی يَکُونَ الرَّجُلُ يَنْزِعُ، وَلَايَصْرِفُ وَجْهَهُ عَنْ وَجْهِهِ حَتَّی يَکُونَ الرَّجُلُ هُوَ الَّذِي يَصْرِفُهُ، وَلَمْ يُرَ مُقَدِّمًا رُکْبَتَيْهِ بَيْنَ يَدَيْ جَلِيسٍ لَهُ".

(رقم الحدیث :2490،(4/654)ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص نبی  کریم ﷺ کے سامنے آتا  تو آپ ﷺاس سے مصافحہ کرتے اور اس وقت تک اپنا ہاتھ نہ کھینچتے جب تک سامنے والا خود نہ کھنچتا، پھر اس وقت تک اس سے چہرہ نہ پھیرتے جب تک وہ چہرہ نہ پھیرتا اور کبھی بھی آپ ﷺکو سامنے بیٹھنے والے کی طرف پاؤں بڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

"عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِك: هَلْ کَانَتْ الْمُصَافَحَةُ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ".

(رقم الحدیث :2729،(5/75)ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ : حضرت قتادہ ؒسے روایت ہے کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مصافحہ کرنے کا رواج تھا؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :جی ہاں۔

"عَنْ رَجُلٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ الْأَخْذُ بِالْيَدِ".

(رقم الحدیث :2730،(5/75)ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ : حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :مصافحہ کرنا (یعنی ہاتھ پکڑنا) سلام کی تکمیل ہے۔

"عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا".

(رقم الحدیث :2727،(5/74)ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں جدا ہونے پہلے بخش دیتا ہے۔

مشکوۃ شریف کی روایت میں ہے :

"وعن أيوب بن بشير عن رجل من عنزة أنه قال: قلت لأبي ذر: هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصافحكم إذا لقيتموه؟ قال: ما لقيته قطّ إلا صافحني، وبعث إلي ذات يوم ولم أكن في أهلي، فلما جئت أخبرت فأتيته وهو على سرير فالتزمني، فكانت تلك أجود وأجود. رواه أبو داود".

(رقم الحدیث :4683، (باب السلام ، الفصل الاول ، 3/13)ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: اور حضرت ایوب بن بشیر بنو غنزہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ جب آپ لوگ رسول کریم ﷺسے ملاقات کیا کرتے تھے تو کیا آنحضرت ﷺ آپ لوگوں سے مصافحہ بھی کیا کرتے تھے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے جب  بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو آنحضرت ﷺ نے مجھ سے مصافحہ کیا اور ایک دن کا واقعہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے بلانے کے  لیے میرے پاس ایک شخص کو بھیجا، اس وقت میں اپنے گھر میں موجود نہیں تھا، جب میں گھر آیا تو مجھے اس کی اطلاع دی گئی، چنانچہ میں آپ ﷺکی خدمت حاضر ہوا آپ اس وقت ایک تخت پر تشریف فرما تھے، آپ نے مجھ کو گلے لگایا اور یہ گلے لگانا  بہتر تھا کہیں زیادہ بہتر۔

مشکوۃ شریف کی دوسری روایت میں ہے :

"وعن عطاء الخراساني أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تصافحوا يذهب الغلّ، وتهادوا تحابوا وتذهب الشحناء، رواه مالك مرسلاً".

 (رقم الحدیث :4693، (باب السلام ، الفصل الأول، 3/15) ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ : حضرت عطاء خراسانی ؒسے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کیا کرو کہ اس سے بغض و کینہ جاتا رہے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ و تحفہ بھیجتے رہا کرو، اس سے محبت بڑھتی ہے اور دشمنی جاتی رہتی ہے۔ (امام مالک نے اس روایت کو بطریق ارسال نقل کیا ہے)۔

یہ بھی یاد رہے کہ مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا سنت  اور افضل ہے، اس طرح کہ دونوں ہاتھوں سے ایک دوسرے کی ہتھیلیاں آپس میں ملائی جائیں،  اِمام بخاریؒ نے بخاری شریف میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے ثبوت کے لیے باقاعدہ ایک "ترجمۃ الباب" قائم فرمایا ہے، اور اُس کے تحت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی  روایت نقل فرمائی ہے جس میں آپ ﷺ کا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کا ذکر ہے،  تاہم کسی عذر کی وجہ سے  ایک ہاتھ سے مصافحہ  کرنے میں  بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ مصافحہ کرتے وقت مندرجہ ذیل آداب کا خیال رکھنا چاہیے:

 (1)پہلے سلام اور پھر مصافحہ کرنا چاہیے، کیوں کہ سلام کے بغیر صرف مصافحہ خلافِ سنت ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 248/5، دارالکتب)

(2)مشغولی کے وقت مصافحہ نہیں کرنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت: 59،مکتبۃ العلم )

 (3) جو شخص تیزی سے جا رہا ہو اُس کو مصافحہ کے لیے نہ روکنا چاہیے؛ تاکہ اس کا کوئی حرج نہ ہو۔(آداب المعاشرت: 48)

 (4)مجلس میں سب لوگوں کی بجائے صرف اُسی آدمی سے مصافحہ پر اکتفا کیا جائے جس کے ساتھ ملاقات کا ارادہ ہو، البتہ اگر باقی لوگوں کے ساتھ بھی واقفیت ہو تو ان سب سے مصافحہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (آداب المعاشرت: 48)

(5)مصافحہ پہلی ملاقات کے وقت یا رخصت ہوتے ہوئے کرنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت:49 ،مکتبۃ العلم)

(6)مصافحہ کرتے وقت دوسرے کی راحت کا خیال رکھنا چاہیے۔ (آداب المعاشرت: 53 ،مکتبۃ العلم)

(7)مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری: 926/2،قدیمی)

(8) مصافحہ ملاقات کے وقت کیے جانے والے سلام کے ساتھ کرنا چاہیے، نمازکے آخر میں جو سلام ہے، یہ سلامِ ملاقات نہیں بلکہ نماز کے اختتام کے لیے ہے، اس موقع پر مصافحہ مشروع نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 414):

"ويسلم على الواحد بلفظ الجماعة وكذا الرد، ولايزيد الراد على وبركاته. (قوله: بلفظ الجماعة)؛ لأن مع كل واحد حافظين كراماً كاتبين، فكل واحد كأنه ثلاثة، تتارخانية (قوله: ولايزيد الراد على وبركاته) قال في التتارخانية: والأفضل للمسلم أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، والمجيب كذلك يرد، ولاينبغي أن يزاد على البركات شيء اهـ. ويأتي بواو العطف في وعليكم، وإن حذفها أجزأه وإن قال المبتدئ: سلام عليكم أو السلام عليكم، فللمجيب أن يقول في الصورتين سلام عليكم أو السلام عليكم ولكن الألف واللام أولى اهـ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 381):

"(كالمصافحة) أي كما تجوز المصافحة؛ لأنها سنة قديمة متواترة؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «من صافح أخاه المسلم وحرّك يده تناثرت ذنوبه»، وإطلاق المصنف تبعاً للدرر والكنز والوقاية والنقاية والمجمع والملتقى وغيره يفيد جوازها مطلقاً ولو بعد العصر، وقولهم: إنه بدعة أي مباحة حسنة كما أفاده النووي في أذكاره وغيره في غيره، وعليه يحمل ما نقله عنه شارح المجمع من أنها بعد الفجر والعصر ليس بشيء توفيقاً فتأمله. وفي القنية: السنة في المصافحة بكلتا يديه، وتمامه فيما علقته على الملتقى. (قوله: لقوله عليه الصلاة والسلام  إلخ) كذا في الهداية، وفي شرحها للعيني: قال النبي صلى الله عليه وسلم : «إن المؤمن إذا لقي المؤمن فسلم عليه وأخذ بيده فصافحه تناثرت خطاياهما كما يتناثر ورق الشجر». رواه الطبراني والبيهقي.(قوله: كما أفاده النووي في أذكاره) حيث قال: اعلم أن المصافحة مستحبة عند كل لقاء، وأما ما اعتاده الناس من المصافحة بعد صلاة الصبح والعصر، فلا أصل له في الشرع على هذا الوجه، ولكن لا بأس به؛ فإن أصل المصافحة سنة، وكونهم حافظوا عليها في بعض الأحوال، وفرطوا في كثير من الأحوال أو أكثرها لايخرج ذلك البعض عن كونه من المصافحة التي ورد الشرع بأصلها اهـ قال الشيخ أبو الحسن البكري: وتقييده بما بعد الصبح والعصر على عادة كانت في زمنه، وإلا فعقب الصلوات كلها كذلك، كذا في رسالة الشرنبلالي في المصافحة ... (قوله: وتمامه إلخ) ونصه: وهي إلصاق صفحة الكف بالكف وإقبال الوجه بالوجه، فأخذ الأصابع ليس بمصافحة خلافاً للروافض، والسنة أن تكون بكلتا يديه، وبغير حائل من ثوب أو غيره وعند اللقاء بعد السلام وأن يأخذ الإبهام، فإن فيه عرقاً ينبت المحبة، كذا جاء في الحديث، ذكره القهستاني وغيره اهـ".

صحيح البخاري (8/ 59):

"باب الأخذ باليدين وصافح حماد بن زيد، ابن المبارك بيديه:حدثنا أبو نعيم، حدثنا سيف، قال: سمعت مجاهداً يقول: حدثني عبد الله بن سخبرة أبو معمر قال: سمعت ابن مسعود، يقول: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكفي بين كفيه، التشهد، كما يعلمني السورة من القرآن: «التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لاإله إلا الله، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله»، وهو بين ظهرانينا، فلما قبض قلنا: السلام - يعني - على النبي صلى الله عليه وسلم".

الكوكب الدري (۳/۳۹۲،  ندوة العلماء لکهنو):

"قوله : (الأخذ باليد) اللام فيه للجنس. فلا تثبت الوحدة، والحق فيه أن مضافحته ﷺ ثابتة باليد و باليدين، إلا أن المصافحة بيد واحدة لما كانت شعار أهل الأفرنج وجب تركه لذلك".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144201201354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں