بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم اگر مقررہ وقت پر ڈیوٹی نہیں دیتا ہو تو اس کے لیے تنخواہ لینا جائز نہیں ہے


سوال

1-اگر کسی شخص کے پاس سرکاری نوکری ہے، لیکن وہ کسی بڑے افسر یا سردار کے ذریعے خود کو آزاد کر واتا ہے۔

2- یا کوئی افسر یا سردار اس کی ڈیوٹی اپنے پاس لگاتے ہیں، اور وہ اس شخص سے ڈیوٹی نہیں لیتے، تو اس کے ليے اس نوکری کی تنخواہ لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

1-صورتِ مسئولہ میں  ملازم کے متعلقہ ادارے کے ساتھ معاہدہ میں جو اوقاتِ کار طے  ہوئے تھے  اتنا وقت اس کے لیے دینا ضروری ہے، اگر وہ کسی بھی ذریعے  کو استعمال کرکےملازمت کے لیے طے شدہ وقت نہیں دیتا تو اس کے لیے اس ملازمت کی تنخواہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے، اگر لی ہے تو اس کو واپس کرنا ضروری ہے۔

2-اگر کوئی افسر یا سردار کسی ملازم کی ڈیوٹی اپنے پاس لگوائے اور وہ ڈیوٹی کے لیے حاضر نہ ہو تو اس کے لیے اس ڈیوٹی کی تنخواہ لینا جائز نہیں ، اور  اگر وہ ملازمت کے لیے حاضر ہوتا ہے، اپنا وقت دیتا ہے اور جو کام دیا جاتا ہے وہ انجام دیتا ہے تو اس کے لیے تنخواہ لینا  جائز ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو ‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل."

(کتاب الاجارہ، باب ضمان الاجیر، مبحث الاجیر الخاص، ج:6، ص:69، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311101889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں