بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کے دوران ذاتی کام کرنے کا حکم


سوال

میں ایک سرکاری یونیورسٹی میں ایک ایسے مضمون کا استاد ہوں جس سے متعلق مجھے بہت سے خارجی پراجیکٹ اور انفرادی کام ملتے رہتے ہیں، مثلاً کسی ادارے کے لیے نصاب سازی کا کام یا کسی ناشر کیلیے ترجمہ کا کام ،ان کاموں کا میں معاوضہ لیتا ہوں، واضح رہے میں اپنی سرکاری جامعہ میں نصاب سازی اور فنِ ترجمہ تدریسی مضامین کے طور پر پڑھاتا ہوں جس میں ان خارجی سرگرمیوں سے اپنی تدریس کو بہتر بنانے کا براہِ راست موقع ملتا ہے، جس کا عملی فائدہ طلباء کو ہوتا ہے، کیا اپنی تدریس کو بہتر بنانے کی نیت سے دفتری اوقات میں اس نوع کے خارجی اور انفرادی پراجیکٹ پر کام کرنا جائز ہے،؟جب کہ دفتری اوقات کے اکثر گھنٹے بالکل فارغ بھی ہوتے ہیں اور حاکمِ بالا کی طرف سے یہ صریح ہدایت بھی ہے کہ ان فارغ اوقات کو مدرسین اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں استعمال کریں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی مذکورہ سرکاری یونیورسٹی میں حیثیت اجیرِ خاص کی ہے اور اجیرِ خاص شرعاً اپنی ملازمت کے اوقات میں جائے ملازمت میں رہ کر اپنی مفوضہ ذمہ داری کی ادائیگی کا پابند ہوتا ہے،ملازم کے لیے کوئی بھی ایسا کام کرنا جو ادارہ کے مفاد  کے خلاف ہو، جائز نہیں ہے،لہذا زیرِ نظر مسئلہ میں سائل  کا مذکورہ یونیورسٹی (جائے ملازمت) میں دفتری اوقات کے دوران کسی بھی نوعیت کا خارجی کام کرنا اور اس پر اجرت لینا شرعاً درست نہیں ہے،اگر چہ اس کام کا تعلق طلبہ کی تعلیمی رہنمائی اور فائدہ کے لیے ہو،ہاں اگر ادارہ کے بااختیار افراد /فرد سائل کو مذکورہ اضافی كام كی اجرت لے کر کرنے کی  باقاعدہ اور   باضابطہ اجازت  دے دیں،  پھر اس کے بعد سائل کا یہ کام کرنا شرعاً جائز ہوگا اور اس کی تنخواہ حلال ہوگی،اور اگر اجرت لینے کی اجازت نہ ہوتو اجرت لینا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.

"(قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."

(کتاب الاجارۃ،ج:6،ص:70،ط:سعید)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"ولا يلزم النص على التخصيص لاعتبار الأجير خاصا بل عدم ذكر التعميم كاف في ذلك وعلى ذلك فالقصد من قول هذه المادة (مخصوصا) عدم ذكر التعميم ليس غيره سواء أذكر التخصيص أم لم يذكر.

أما إذا ذكر التعميم بأن صرح في استئجار ‌الأجير ‌الخاص بحكم الأجير المشترك فيكون حينئذ أجيرا مشتركا وذلك كما لو أباح أهل القرية، أو الرجلان، أو الثلاثة للراعي رعي غنم غيرهم فإن الراعي يكون أجيرا مشتركا."

(الكتاب الثاني الإجارة،ج:1،ص:457،ط:دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100550

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں