بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف ترکوں کی تقسیم اور مشترکہ رقم سے خریدے گئے مکان کی تقسیم جبکہ یہ علم نہیں کہ کس کی کتنی رقم شامل تھی


سوال

ایک گھر ہے جسے پانچ افراد نے اپنی اپنی جمع پونجی ملاکر خریدا ہے، وہ پانچ افراد یہ ہیں: والدہ، دو بہنیں اور دو بھائی، اس بات کو کافی عرصہ گزر گیا ہے اور گھر خریدنے والوں میں سے چار افراد (والدہ، دونوں بہنیں اور ایک بھائی) کا انتقال بھی ہوگیا ہے، ان خریدنے والوں میں ایک میں زندہ ہوں اور یہ علم کسی کو نہیں ہے کہ کس کی کتنی رقم مذکورہ گھر کے خریدنے میں شامل تھی، مذکورہ گھر 74 لاکھ 50 ہزار روپے کا ہے۔

ان پانچ افراد میں سب سے پہلے ایک بہن کا انتقال ہوا تھا، اس وقت اس کے ورثاء میں والدہ، چھ بہنیں اور دو بھائی تھے، پھر ایک بھائی کا انتقال ہوا تھا، ورثاء میں والدہ، چھ بہنیں اور ایک بھائی تھا، پھر والدہ کا انتقال ہوا تھا، ورثاء میں چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا، پھر دوسری بہن کا انتقال ہوا تھا، ورثاء میں صرف ایک بیٹا تھا، مرحومہ کا شوہر اور اس کے والدین اس کی زندگی میں انتقال کرگئے تھے۔

مذکورہ تفصیل کے مطابق پانچ افراد میں سے ہر ایک کا کتنا حصہ تھا؟ پھر ان میں سے فوت ہونے والے ہر ایک کا حصہ اس کے ورثاء میں کیسے تقسیم ہوگا؟ زندہ ورثاء میں مذکورہ گھر کی رقم مکمل تقسیم فرمادیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گھر کی خریداری میں چونکہ پانچ افراد (والدہ، دو بہنیں اور دو بھائی) کی رقم شامل تھی اور یہ علم کسی کو نہیں کہ کس کی کتنی رقم شامل تھی، اس لیے اب مذکورہ گھر پانچوں افراد میں برابر سرابر تقسیم ہوگا، یعنی 74 لاکھ 50 ہزار روپے میں سے ہر ایک کے حصے میں 14 لاکھ 90 ہزار روپے آئیں گے، پھر ان میں سے چار افراد (والدہ، دونوں بہنیں اور ایک بھائی) کا سوائے سائل کے انتقال ہوچکا ہے تو ان میں سے ہر ایک کے حصے کی رقم ان کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگی۔

پہلی مرحومہ بہن کے ترکہ  کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ان کے ترکہ میں سے ان کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، ان پر اگر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، انہوں نے اگر  کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کےایک تہائی میں اسے نافذ کرنے کےبعد، باقی متروکہ جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے 8 حصے کرکے مرحومہ کے بھائی کو 2 حصے، پانچ بہنوں میں سے ہر ایک کو ایک حصہ اور مرحومہ کی مرحومہ بہن کے بیٹے کو ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: 8 (مرحومہ بہن، بھائی اور والدہ)

بھائیبہنبہنبہنبہنبہنبہن
2111111
۔۔۔فوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میت: 1 (مرحومہ کی مرحومہ بہن) مف: 1

بیٹا
1

یعنی 100 روپے میں سے مرحومہ کے بھائی کو 25 روپے، پانچ بہنوں میں سے ہر ایک کو 12.50 روپے اور مرحومہ کی مرحومہ بہن کے بیٹے کو 12.50 روپے ملیں گے۔

اور مرحومہ کے حصہ کی رقم 1490000 روپے میں سے ان کے بھائی کو 372500 روپے، پانچ بہنوں میں سے ہر ایک کو 186250 روپے اور مرحومہ کی مرحومہ بہن کے بیٹے کو 186250 روپے ملیں گے۔

مرحومہ بہن کے بعد انتقال کرنے والے مرحوم بھائی اور مرحومہ والدہ کا ترکہ بھی اسی تفصیل کے مطابق تقسیم ہوگا، یعنی کل ترکہ کے حصے اور رقم کی تقسیم اوپر ذکر کردہ طریقے کے مطابق ہوگی۔

البتہ ان چاروں میں سے آخر میں انتقال کرنے والی مرحومہ بہن کے ورثاء میں چونکہ اس کا صرف ایک بیٹا ہے، شوہر اور والدین اس کی زندگی میں فوت ہوگئے ہیں، اس لیے اس کا سارا ترکہ یعنی 1490000 روپے اس کے بیٹے کو ملیں گے۔

الغرض مذکورہ تفصیل کی رو سے مرحومین کے بھائی (سائل) کو گھر کی خریداری میں ملائی گئی رقم کے عوض ملنے والے (1490000) روپے اور تین مرحومین سے ملنے والے (372500) روپے کے لحاظ سے 2607500 روپے، پانچ بہنوں میں سے ہر ایک کو تین مرحومین سے ملنے والے (186250) روپے کے لحاظ سے 558750 روپے اور مرحومین کی مرحومہ بہن کے بیٹے کو تین مرحومین سے ملنے والے (558750) روپے اور اس کی اپنی مرحومہ والدہ سے ملنے والے (1490000) روپے کے لحاظ سے 2048750 روپے ملیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فإذا كان سعيهم واحدا ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركا بينهم ‌بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصوابا كما أفتى به في الخيرية."

(ج:4، ص:307، کتاب الشرکة، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144306100558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں