بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی بیاہ وغیرہ کی مختلف تقاریب میں ہدایا کے لین دین کا حکم


سوال

دعوتِ ولیمہ کی تقریب کے موقع پر دولہا کو سلامی کے عنوان سے پیسے دینے کا رواج اس حد تک عام ہے کہ نہ دینے والے تنقید کی زد میں آتے ہیں کہ "فلاں شخص نے تو ایک پائی بھی نہیں دی" اور اکثر و بیشتر دینے والے حضرات بھی وہ لوگ ہوتے ہیں جو بدلہ چکانے کی غرض سے دیتے ہیں، یا پھر گنجائش نہ ہونے کے باوجود محض جبرِ عرفی کی بنیاد پر دیتے ہیں، تو کیا تقاریب کے مواقع پر اس طرح کا لین دین شرعاً درست ہے یا نہیں؟اس کا کیا حکم ہے؟ تفصیل سے راہ نمائی فرما کر مشکور فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ    حسنِ سلوک کی نیت سے،محبت و بھائی چارگی میں اضافہ کرنےکی خاطر،بطیب ِنفس،حسبِ استطاعت ، ہدایاکا تبادلہ شرعاً واخلاقاًمحبوب  عمل ہے،اور   آپ ﷺ کے عمل سے پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کو کسی کی جانب سے کوئی ہبہ وغیرہ ملے تو اس کے لیے اخلاقی تعلیم یہ ہے کہ وہ بھی جب اس کو موقع ملے کوئی چیز ہبہ کرے،باقی شادی اور ولیمہ  وغیرہ کے موقع پر ہر خاندان اور علاقہ کا عرف مختلف ہوتا ہے،چناں چہ اگر کسی خاندان کا عرف یہ ہے کہ وہ شادی کے موقع پر  سلامی   خالص ہدیہ کے طور پر دیتے ہوں اور بعد میں اتنی ہی رقم ان کی شادی میں واپس ملنے کی کوئی نیت نہ ہو تو  یہ  ہدیہ ہے،اس کا لین دین  فی نفسہ جائز اور مستحسن ہے،چاہے کم ہو یا زیادہ، شرعاً کچھ حرج نہیں،لیکن اگرایک دوسرے کو  رقم دینا اس نیت سے ہو کہ جتنے فلاں نے دیے ہیں صاحبِ دعوت اس کی شادی اور ولیمے وغیرہ میں اس سے زیادہ رقم واپس کرے گا، اور اس کا باقاعدہ حساب کتاب بھی کیا جاتا ہو تو پھر یہ صورت  درج ذیل  مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے،اوراس کا ترک  لازم ہے:

1:اس طرح کے لین دین میں یہ رسم قرض بشرط القرض (یعنی  "نیوتہ"  کی رسم) کہلاتی ہے ،  کیوں کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ جب یہ قرض ادا ہوگا تو اپنے ساتھ سامنےسے مزید رقم کھینچ کر لائے گا،اس طرح یہ قرض ایک طرح کا نفع لانے والا بن گیا اور  شرعًا یہ  صورت سودی قرض کے زمرے میں آتی ہےاور سودی قرض لینا دینا ناجائز اور حرام ہے۔

2:شرعی طور پر   قرض ہونے کی وجہ سے صاحبِ دعوت پر اتنی ہی رقم واپس کرنا بھی لازم ہوتا ہے،لیکن بسا اوقات یہ قرض ادا کیے بغیر ہی لوگ رخصت ہو جاتے ہیں اور قرض خواہ یہ رقم معاف بھی نہیں کرتے اور عام طور پر اس قرض کے متعلق وصیت بھی نہیں کی جاتی، اور اولاد  بھی اس کو ادانہیں کرتی اور یوں یہ شخص جسے  بدلے کی  نیت سے رقم دی گئی ہوتی ہے، ہمیشہ کے لیے قرض کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے ،جب کہ قرض کی ادائیگی یا قرض خواہ کی معافی کے بغیر قرض ساقط نہیں ہوتا۔

3:قرض کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ جونہی ادائیگی ممکن ہو ادائیگی کر دی جائے،لیکن یہ قرض کی ایسی صورت ہے کہ اس کو انسان مالی کشادگی کے باوجود اپنی مرضی سے ادا نہیں کر سکتااور یوں قدرت کے باوجود ادائیگی میں تاخیر کے باعث وہ گناہ گار ہوتا رہتا ہے۔

4:عام طور پریہ رقم معاشرے اور رواج کے جبر و اصرارسے لی جاتی ہے؛کیوں کہ نہ دینے کی صورت میں طعن و تشنیع اور ملامت کا نشانہ بننا پڑتا ہےیا کم از کم برادری میں گری ہوئی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے دینے والےکی خوش دلی شامل نہیں ہوتی ،جب کہ  حدیث کی رُو سے کسی کی خوش دلی کے بغیر اس کا مال لینا  اوراس کو استعمال میں لاناحرام ہے۔

5:بسا اوقات دینے والے کی نیت ریاکاری ،نام و نمود اور  فخر و مباہات  کی ہوتی ہے،جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک  سخت مذموم اورناپسندیدہ عمل ہے،جس کی وجہ سے شرعاً جائز کام بھی عند اللہ  غیر مقبول اور ناجائز  ہو جاتا ہے۔

6:علاوہ ازیں مذکورہ بالا مفاسد پرعقلاً  غور کرنے سے بھی اس رسم کی قباحت واضح ہو جاتی ہے، وہ اس طرح کہ شادی بیاہ وغیرہ خوشی کے مواقع ہیں اور جس کو یہ خوشی حاصل ہوتی ہے وہ مسرت کے اظہار کے لیے دعوت کھلاتا ہے، اوردعوت کھلا کر اس کا عوض وصول کرنا عقلِ سلیم کے نزدیک نہایت ہی باعث عار ہے؛لہذا  مذکورہ مفاسد کےپیشِ نظر تمام مسلمانوں کو اس رسم بد سے اجتناب کرنا چاہیے اور اس طرح کے عرف کی صورت میں جو رقم کسی کے ذمے ہو اس کو فورا ادا کر دینی چاہیے ،یامعاف کروا دینی چاہیے، اگر دوسرے کے ذمے اس کی رقم ہو تو اسے وصول کرنا  چاہےتو کر لے ورنہ معاف کر کے معاملہ صاف کردے ۔

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ."(البقرة:264)

ترجمہ:"اے ایمان والو! تم احسان جتا کر یا ایذا پہنچا کرپنی خیرات کوبرباد مت کرو! جس طرح وہ شخص جو اپنا مال خرچ کرتا ہے لوگوں کو دکھلانےکی غرض سے اور ایمان نہیں رکھتااللہ پراور یومِ قیامت پر."(بیان القرآن)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً الظاهر أنه ‌أريد ‌به ‌الزيادة ‌المعروفة في المعاملة التي حرمها الشارع إليه ذهب الجبائي وروي ذلك عن الحسن ويشهد له ما روي عن السدي من أن الآية نزلت في ربا ثقيف كانوا يرون وكذا كانت قريش، وعن ابن عباس ومجاهد، وسعيد بن جبير، والضحاك، ومحمد بن كعب القرظي، وطاوس وغيرهم أنه أريد به العطية التي يتوقع بها مزيد مكافأة وعليه فتسميتها ربا مجاز لأنها سبب للزيادة، وقيل: لأنها فضل لا يجب على المعطي.

وعن النخعي أن الآية نزلت في قوم يعطون قراباتهم وإخوانهم على معنى نفعهم وتمويلهم والتفضيل عليهم وليزيدوا في أموالهم على جهة النفع لهم وهي رواية عن ابن عباس فالمراد بالربا العطية التي تعطى للأقارب للزيادة في أموالهم، ووجه تسميتها بما ذكر معلوم مما ذكرنا، وأيا ما كان- فمن- بيان- لما- لا للتعليل.... وقال ابن الشيخ:

المعنى على تفسير الربا بالعطية ليزيد ذلك الربا في جذب أموال الناس وجلبها، وفي معناه ما قيل ليزيد ذلك بسبب أموال الناس وحصول شيء منها لكم بواسطة العطية."

(سورة الروم، ج:11، ص:45، ط:دارالكتب العلمية)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ‌لبس ‌ثوب ‌شهرة من الدنيا ألبسه الله ثوب مذلة يوم القيامة». رواه أحمد وأبو داود وابن ماجه."

(كتاب اللباس، الفصل الثاني، ج:2، ص:1246، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس شخص نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا."

وفیہ ایضاً:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لاتظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج:2، ص:889، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار کسی پر بھی ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو!کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی  کے بغیر  حلال نہیں ہے."

 وفیہ ایضاً:

"عن أبي سعد بن أبي فضالة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا جمع الله الناس يوم القيامة ليوم لا ريب فيه نادى ‌مناد: من كان أشرك في عمل عمله لله أحدا فليطلب ثوابه من عند غير الله فإن الله أغنى الشركاء عن الشرك. رواه أحمد."

ترجمہ:" سیدنا ابو سعد بن ابو فضالہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں اور پچھلوں کو قیامت کے روز جس کی آمد میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا، تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا:’’ جس نے اللہ کے لیے کیے ہوئے کسی عمل میں کسی غیر کو شریک کیا ہو وہ اس کا ثواب بھی اسی غیر اللہ سے طلب کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہے۔"

وفیہ ایضاً:

"وعن جندب قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌سمع سمع الله به ومن يرائي يرائي الله به». متفق عليه."

(كتاب الرقاق، باب الرياء والسمعة، الفصل الأول، ج:3، ص:1462، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"جوشخص شہرت کے لیے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے رسوا کر دے گا۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص ‌إلى ‌غيره ‌في ‌الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اهـ.

قلت: والعرف في بلادنا مشترك نعم في بعض القرى يعدونه فرضا حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب يكتب لهم ما يهدى فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدى الدفتر فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه."

(كتاب الهبة، ج:5، ص:696، ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض ‌جر ‌نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض، فأما إذا كانت غير مشروطة فيه ولكن المستقرض أعطاه أجودهما؛ فلا بأس بذلك؛ لأن الربا اسم لزيادة مشروطة في العقد، ولم توجد، بل هذا من باب حسن القضاء، وأنه أمر مندوب إليه قال النبي عليه السلام: «خيار الناس أحسنهم قضاء».«وقال النبي عليه الصلاة والسلام عند قضاء دين لزمه - للوازن: زن، وأرجح»."

(كتاب القرض، ج:7، ص:395، ط:دار الكتب العلمية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"الدين الصحيح لا يسقط إلا بالأداء أو ‌الإبراء."

(كتاب الكفاله، ج:4، ص:153، ط:دارالكتاب الإسلامي)

 قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ."(الروم:39)

ترجمہ:"ور جو چیز تم اس غرض سے دو گے کہ وہ لوگوں کے مال میں پہنچ کر زیادہ ہو جاوے تو یہ الله تعالیٰ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو زکوٰة دو گے جس سے الله کی رضا طلب کرتے رہو گے تو ایسے لوگ الله تعالیٰ کے پاس بڑھاتے رہیں گے."

اس آیت کی تشریح کرتے معارف القرآن میں مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے، جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ ایک دوسرے کو دیتے ہیں اس پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے وقت میں کچھ دے گا،بلکہ رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا، خصوصاً نکاح ،شادی وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ دیا لیا جاتا ہے اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے، جس کو عرف میں نوتہ کہتے ہیں،اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ اہل قرابت کا جو حق ادا کرنے کا حکم پہلی آیت میں دیا گیا ہےان کو یہ حق اس طرح دیا جائے کہ نہ ان پر احسان جتائے اور نہ کسی بدلے پر نظر رکھے، جس نے بدلے کی نیت سے دیا کہ ان کا مال دوسرے عزیز رشتہ دار کے مال میں شامل ہونے کے بعد کچھ زیادتی لے کر واپس آئے گا تو اللہ کے نزدیک اس کا کوئی درجہ اور ثواب نہیں ،اور قرآن کریم نے اس زیادتی کو لفظ ربا سےتعبیر کر کے اس کی قباحت کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ ایک صورت سود کی سی ہوگی ۔"

(سورۂ روم،ج:6، ص:750، ط: مکتبہ معارف القرآن، کراچی)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے :

"یہ طریقہ اور اس کا  التزام غیر شرعی رسم ہے،جس کا ترک کرنا لازم ہے،بلا ضرورت اور بلا طلب قرض ہے،بغیر ادا کیے  مطالبہ  ذمہ میں باقی رہے گا،کسی غریب کی مدد بغیر رسم و نمائش اور بغیر اس امید کے کہ یہ ہماری مدد اسی طرح کرے گا،نیز خوش کرنے کے لیے بلا حاجت بھی ہدیہ کے طور پر دینا مستحسن ہے،مگر مذکورہ مسئولہ طریقہ کی یہ صورت نہیں."

(کتاب النکاح،باب مایتعلق بالرسوم عندالزفاف،زیر عنوان: نوید اور دعوت میں فرق،ج:11،ص:238،239،ط:ادارۃ الفارق،کراچی)

وفیہ ایضاً:

"اگر یہ بطریق اعانت کے ہو اور ریاکاری نام و نمود وغیرہ کچھ نہ ہو تو شرعا درست بلکہ مستحسن ہے، مگر طریقہ مروجہ کی حیثیت سے بجز رسم  و رواج کے کچھ نہیں، اور بسا اوقات برادری کے زور یا رسوائی کے خوف سے دیا جاتا ہے بلکہ اگر پاس نہ ہو تو قرض  یا سودی لے کر دیا جاتا ہے اس لیے ناجائز ہے اور اگر بطور قرض دیا جاتا ہے جیسا کہ بعض جگہ رواج ہے،تو اس میں بھی مفاسد ہیں  ."

(کتاب النکاح،باب مایتعلق بالرسوم عندالزفاف،زیر عنوان: شادی میں نیوتہ،ج:11،ص:242،ط:ادارۃ الفارق،کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں