میرے دادا کی ایک زمین ہے ،جو تین حصوں پر پر مشتمل ہے،کچھ حصہ روڈکے متصل ہے جو قیمت میں مہنگی ہے ،اور کچھ روڈ سے فاصلہ پر ہے جو پہلی زمین کی بنسبت کچھ سستی ہے،اب کچھ ورثاء کا کہنا ہے کہ ہمیں روڈ کی متصل والی جگہ میں حصہ مل جائے جب کہ دیگر ورثاء اس پر راضی نہیں ہیں،مذکورہ زمین کی ایک مرتبہ تقسیم ہوگئی تھی لیکن ابھی اس میں اختلاف سامنے آیا ہےکہ ایک بہن کے حصہ میں روڈسے متصل جگہ آئی تھی اور کچھ روڈسے پیچھے کی زمین بھی تھی تو اس نے پیچھے کی زمین کو چھوڑا اور روڈسے متصل مکمل حصہ کا مطالبہ کرنے لگی ہے،اسی طرح ایک اور زمین بھی تقسیم ہوئی تھی اور ایک بہن کےحصہ میں مہنگی زمین اور دوسری کم قیمت والی زمین میں بھی اس کاحصہ بن رہاتھا لیکن اس میں بہن کو حصہ نہیں دیا گیا،اب کچھ بھائی اس کم قیمت والی زمین میں بھی بہن کو حصہ دینا چاہتے ہیں ،ورثاء چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں،اور کیا ہرجگہ میں جہاں بیٹے کو دو حصے ملتے ہو وہاں بیٹی کو ایک حصہ دینا ضروری ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زمین کی تقسیم کاشرعی طریقہ یہ ہےکہ یا تو تینوں زمینوں کی الگ الگ تقسیم کی جائے اور یا قیمت کے اعتبار سے تقسیم کی جائے کہ جس کو زیادہ قیمت والی زمین میں حصہ ملے اس حساب سے اس کو کم قیمت والی زمین میں کم حصہ دیا جائے،اس لیے سائل کے دادا کی زمین اگراس طریقہ کے مطابق تقسیم ہوئی تھی تو سائل کی بہن کا ازسرنو تقسیم کا مطالبہ یا کسی زائد قیمت والی زمین میں حصہ کا مطالبہ درست نہیں ہے ،اور اگر تقسیم اس طریقہ کے مطابق نہیں ہوئی اور ورثاء اس تقسیم پر راضی بھی نہ ہوں تو از سر نوتقسیم کرنا ضروری ہے ۔
سنن الدار قطنی میں ہے؛
"عن أنس بن مالك , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه»"
(ج3 ص424 حدیث 2885 ط:بیروت لبنان)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا مات الرجل وترك أرضين أو دارين فطلب ورثته القسمة على أن يأخذ كل واحد منهم نصيبه من كل الأرضين أو الدارين جازت القسمة وإن قال أحدهم للقاضي اجمع نصيبي من الدارين والأرضين في دار واحدة وفي أرض واحدة وأبى صاحبه قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - يقسم القاضي كل دار وكل أرض على حدة ولا يجمع نصيب أحدهم في دار واحدة ولا في أرض واحدة"
(کتاب القسمۃ ،الباب الثانی فی بیان کیفیۃ القسمۃ ج5ص204ط:رشیدیہ)
شرح المجلۃ میں ہے:
"أما الأشجار والأبنية التي على العرصة والأراضي فتقسم بتقدير القيمة، ۔۔۔مثلا لو أراد اثنان تقسيم البستان المملوك لهما إرثا الحاوي أشجارا مختلفة القيمة فيقسمان العرصة بالذراع والأشجار بتقدير القيمة (البهجة) ."
(الکتاب لعاشر فی الشرکات،باب فی بیان القسمۃ ،الفصل الخامس فی بیان کیفیۃ القسمۃ ج3ص149 ط:دارالجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100257
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن