بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا


سوال

میں اپنے بیٹے کا نام محمد زمیل،محمد سدیس،محمد ذکی ،محمدآذان میں سے کون سا رکھو ں ؟آپ ناموں کا مطلب اور اپنا مشورہ دیں ،مجھے محمد ذکی نام پسند ہے یا محمد ادریس پسند ہے آپ اپنا مشورہ دیں۔

جواب

 سوال میں ذکر کردہ ناموں میں سے "زمیل" کا  معنی ہے:دوست ،رفیق ِ سفر اور ساتھی ، اس  لیے اس نام کے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

" سُدَيْس" کا معنیٰ ہے: کسی چیز کا چھٹا حصہ،  نیز بعض روایات میں   "  سُدَيْس" ایک صحابی کا نام بھی  ذکر ہوا ہے،لہذا اس مناسبت سے یہ نام رکھنا بھی درست ہے۔

" ذکی "  کا معنیٰ ہے:ذہین، سمجھدار، یہ نام رکھنا بھی جائز ہے۔

" آذان " عربی زبان کا لفظ ہے، اور اُذُن کی جمع ہے،  جس کا معنیٰ ہے:كان (سننے کا عضو)، لہٰذا اس اعتبار سے"آذان" نام رکھنا درست نہیں ہے۔

مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا مرحوم بن عبد العزيز عن أبيه عن (‌سديس) العدوي قال: غزونا مع الأمير (الأبلة)......إلخ"

"(كذا في النسخ، ويوافق ما في الإصابة 3/ 253، وفي كتب التراجم: (شويس))."

(ما ذکر في تستر،کتاب البعوث والسرایا،رقم:36089،ط:داركنوز إشبيليا)

الإصابة في تمييز الصحابة میں ہے:

"سديس العدوي له إدراك قال أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا مرحوم بن عبد العزيز عن أبيه عن سديس العدوي قال غزونا الأبلة فظفرنا بهم ثم انتهينا إلى الأهواز فظفرنا بهم و سبينا كثيرًا فوقعنا على النساء فكتب أميرنا إلى عمر فذكر قصته ولعله شويس الآتي في المعجمة فليحرر."

(حرف السین المهملة،القسم الثالث، 208/3، ط: العلمیة)

القاموس الوحید میں ہے:

’’ذَکِیَ فُلان ذَکاََ: ہوشیار ہونا، ذہین ہونا، ھُوَ ذَکِیّ ج: أَذکِیاء.‘‘

(ص:472،ط: ادارہ اسلامیات )

فقہ اللغہ وسر العربیہ میں ہے:

"المرماة السهم الذي يرمى به الهدف. المريخ السهم الذي يغلى به "وهو. سهم طويل له أربع ‌آذان."

(الباب الثالث والعشرون فی اللباس وما یتصل به إلخ،ص:175،دار إحیاء التراث العربي)

ایضاح شواہد الایضاح میں ہے:

"وصمام: اسم للداهية، معدول عن صامة، كما عدلت "حذام" عن حاذمة، و "رقاش" عن راقشة، سميت بذلك، لأنها إذا نزلت أصمت ‌آذان الناس."

(رقم:192،الشاهد فیه،653/2،ط:دارالغرب الإسلامی)

 لہذا مذكوره بالا ناموں ميں سے (چوتھے نام کے سوا )بچے کا نام اگرچہ  کسی بھی نام کے مطابق رکھا جاسکتا ہے،لیکن  واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی کی وجہ سے مسلمانوں میں ہمیشہ سے انبیاء،صحابہ اور سلفِ صالحین کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھنے کا تعامل پایا جاتا ہے    ،چناں چہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

"سموا بأسماء الأنبياء."

(كنز العمال،الباب السابع في بر الأولاد وحقوقهم،الفصل الأول في الأسماء والكنی،رقم الحديث:،421/16،45218،الرسالةالعلمية)

ترجمہ:’’یعنی تم لوگ اپنے بچوں کے نام انبیاء کے ناموں کے مطابق   رکھو۔‘‘

لہذا صورتِ مسؤلہ میں  مختلف ناموں میں سے چوں کہ  "سدیس" نام صحابی اور "  ادریس" نام نبی کے نام پر  ہے ،اس لیے بچے کانام  صحابہ اور  انبیاء  کے ناموں  کے مطابق  رکھنا ہی    افضل اور باعثِ برکت ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101490

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں