بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف ممالک کی کرنسیاں مختلف الجنس ہیں یا متحدالجنس؟


سوال

مختلف ممالک کی کرنسیاں مختلف الجنس ہیں یا متحدالجنس؟ اگر مختلف الجنس ہیں تو اس میں اختلاف جنس کی کیا علت ہے؟جب کہ بعض علماء کی رائے یہ ہےکہ مختلف ممالک کی کرنسیاں متحدالجنس ہیں کیوں کہ دونوں کی اصل بھی ایک ہے یعنی کاغذ ،اسی طرح دونوں کا وصف بھی ایک ہے یعنی عددی ہونا اور دونوں سے مقصود بھی ایک ہے یعنی حصول اشیاء لہذا  مختلف ممالک کی کرنسیاں متحدالجنس ہیں۔

براہِ کرم اس معاملے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں؟

جواب

واضح رہےکہ ایک ملک کے مختلف سکے اور کرنسی نوٹ ایک ہی جنس کے ہیں اور مختلف ممالک کی کرنسیاں مختلف اجناس ہیں،اس لیے کہ موجودہ دور میں سکے اور کرنسی نوٹوں سے ان کی ذات،ان کا مادہ مقصود نہیں ہوتا،بلکہ آج کے دور میں "کرنسی" قوت خرید کے ایک مخصوص معیار سےعبارت ہےاور ہر ملک نے چوں کہ الگ معیارمقررکیاہواہے،مثلاً پاکستان میں روپیہ،سعودی عرب میں ریال،امریکہ میں ڈالر،لہذایہ معیار ملکوں کے اختلاف سے بدلتا رہتاہے،اس وجہ سے کہ ہرملک کی کرنسی کی حیثیت کا تعین اس ملک کی قیمتوں کے اشاریہ اور اس کی درآمدات وبرآمدات وغیرہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اور کوئی ایسی مادی چیز موجود نہیں ہے جو ان مختلف معیارات کے درمیان کوئی پائیدار تناسب قائم رکھے،بلکہ ہر ملک کے اقتصادی حالات کے تغیر واختلاف کی وجہ سے اس تناسب میں ہر روزبلکہ ہر گھنٹے تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے،لہذا ان مختلف ممالک کی کرنسیوں کے درمیان کوئی ایک پائیدار تعلق نہیں پایا جاتا جوان سب کو جنس واحد بنادے،اس کے برخلاف ایک ہی ملک کی کرنسی اور سکوں میں یہ بات نہیں،اگر چہ مقدار کے لحاظ سےوہ بھی مختلف ہوتے ہیں،لیکن اس اختلاف کا تناسب ہمیشہ ایک ہی طرح رہتاہے،اس میں کوئی فرق نہیں،مثلاً پاکستانی روپیہ اور پیسہ اگر چہ دونوں مختلف قیمت کے حامل ہیں،لیکن دونوں کے درمیان جو ایک اور سو کی نسبت ہے(کہ ایک پیسہ ایک روپیہ کا دسواں حصہ ہوتاہے) روپیہ کی قیمت بڑھنے اور گھٹنے سے اس کی نسبت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا،بخلاف پاکستانی روپیہ او رسعودی ریال کے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی ایسی معین نسبت موجودنہیں جو ہر حال میں برقرار رہے،بلکہ ان کے درمیان نسبت ہروقت بدلتی رہتی ہے۔

لہذا جب ان کے درمیان کوئی ایسی معین نسبت جو جنس ایک کرنے کے لیے ضروری تھی،نہیں پائی گئی تو تمام ممالک کی کرنسیاں آپس میں ایک دوسرے کے لیے مختلف اجناس ہوگئیں،یہی وجہ ہے کہ ان کے نام،ان کے پیمانے اور ان سے بنائی جانے والی اکائیاں (ریز گاری وغیرہ) بھی مختلف ہوتی ہے۔(مستفاد  از فقہی مقالات ج:2،ص:122/123،ط:مکتبہ دارالعلوم)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"وأما العملة الأجنبيةمن الأوراق فهي جنس آخر،فيجوز مبادلتها بالتفاضل،فيجوز ثلاث ربيات باكستانية بريال واحد سعودي."

(كتاب المساقاة والمزارعة،باب الربا ج:1،ص:590،ط:دارالعلوم كراچی)

فتاوی بینات میں ہے:

"جس طرح حقیقی زر سونا اور چاندی کی بیع میں متحد الجنس ہونے کی صورت میں برابری اور تقابض ضروری ہے، اسی طرح باتفاق علماء و اہل حق رائج الوقت کرنسی نوٹ، اور کاغذی سکہ میں بھی متحد الجنس و نوع کی صورت میں برابری اور تقابض ضروری ہے، مثلاً ایک ڈالر کے عوض دو ڈالر کی بیع جائز نہیں ، ایک پونڈ کے عوض دو پونڈ کی بیع جائز نہیں ہے۔ علیٰ ہذا القیاس تمام ممالک کے کاغذی سکوں کا حکم ہے، ہر ملک کا سکہ الگ الگ جنس ثمن ہے ایک ملک کے مساوی سکہ میں تفاضل ربوا اور سود ہوگا، مثلاً ایک ڈالر کے بدلہ میں دو ڈالر ایک ریال کے بدلہ میں دو ریال،ایک پونڈ کے بدلہ میں دو پونڈ ایک روپیہ کے بدلہ میں دو روپیہ یا ایک روپیہ کچھ پیسے ۔لیکن مختلف ممالک کے سکے مختلف جنس کے حکم میں ہونے کی وجہ سے اس میں تفاضل جائز ہے ، اور ہوتا بھی یہی ہے، مثلاً ایک ڈالر کے بدلہ میں ۱۶؍روپے ایک ریال کے بدلہ میں چار روپے ، تاہم نقداً بنقدٍ ہونا ضروری ہے ادھار جائز نہیں ہے کیونکہ یہ حقیقی ثمن سونا اور چاند ی کے حکم میں ہیں، لہٰذا مختلف ممالک کے سکوں کی جب ہوتو دست بدست ہونا ضروری ہے۔"

(کتاب الزکوٰۃ ج:2ص:675ط:مکتبہ بینات)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"سوال:آج کل غیر ملکی کرنسی کی خرید وفروخت کا کاروبار عام ہے، تاجر لوگ غیر ملکی کرنسی کم قیمت پرخرید کر زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں، مثلا سعودی ریال ۱۳؍روپے میں خرید کر ۱۵؍روپے میں فروخت کیا جاتا ہے تو کیا اس طرح غیرملکی کرنسی کی خرید وفروخت سود میں داخل ہے یا نہیں؟ 

الجواب:سود متحقق ہونے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں اشیاء ایک ہی جنس سے ہو، اگر جنس مختلف ہوجائے تو ان میں تفاضل (یعنی) جائز ہے ۔ موجودہ دور میں مختلف ممالک کی کرنسی مختلف الاجناس اشیاء میں داخل ہے ، اس لئے ان کی خرید وفروخت میں کمی بیشی جائز ہے۔ لہٰذا صورت  مسئولہ میں ایک سعودی ریال ۱۳؍روپے میں خرید کر ۱۵؍روپے میں فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 

لما قال العلامہ ابوالحسن القدوریؒ: فاذا عدم الوصفان الجنس والمعنی المضمون الیہ حل التفاضل والنساء واذا وجد حرم التفاضل والنساء واذا وھد احدھما وعدم الاٰخر حل التفاضل وحرم النساء(مختصرالقدوری علی صدراللباب:ج؍۱،ص؍۱۲۱، باب الربا)۔"

(فتاوی حقانیه ج:6،ص:295،ط:دارالعلوم حقانیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100862

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں