بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف لوگوں کا مل کر قرآن ختم کرنا


سوال

کیا قرآن کریم کے پاروں کو تقسیم کرکے ختم کر سکتے ہیں؟ یعنی دس لوگ اپنے اپنے ذمے تین تین پارے لے لیں اور ایسے پورا قرآن کریم کو ختم کریں ۔

جواب

واضح رہے کہ قرآن کا پڑھنا خیر وبرکت کا ذریعہ ہے، لہذا ایصالِ ثواب  یا برکت کے حصول کے لیے قرآن خوانی تو بلاشبہ دُرست ہے، لیکن اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میت  کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔

دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا :" بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!"

سوم:… یہ کہ قرآن خوانی اگر ایصالِ ثواب کے لیے کی جارہی ہے تو یہ کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ 

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر قرآن کریم اس طرح ختم کروایا جارہا ہے کہ آپ میں کچھ پارے تقسیم کردیے جائیں اور سب مل کر ایک قرآنِ کریم کا ختم کرلیں تو یہ قرآن خوانی اگر مذکورہ بالا شرائط کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کی جائے کہ اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ اگر اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں یا  وہاں موجود لوگ مل کر قرآن خوانی کرلیں، یا اگر کوئی پڑھنے والا دست یاب نہ ہو تو جو پڑھنا جانتے ہیں ان سے پڑھوا لیا جائے  اور اس پر اجرت لی، دی نہ جائے اور نہ ہی اس کے عوض میں دعوت کا التزام کیا جائے  تو اس طرح کی قرآن خوانی درست ہوگی اور اگر ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"فَمِنْ جُمْلَةِ كَلَامِهِ قَالَ تَاجُ الشَّرِيعَةِ فِي شَرْحِ الْهِدَايَةِ: إنَّ الْقُرْآنَ بِالْأُجْرَةِ لَا يَسْتَحِقُّ الثَّوَابَ لَا لِلْمَيِّتِ وَلَا لِلْقَارِئِ. وَقَالَ الْعَيْنِيُّ فِي شَرْحِ الْهِدَايَةِ: وَيُمْنَعُ الْقَارِئُ لِلدُّنْيَا، وَالْآخِذُ وَالْمُعْطِي آثِمَانِ. فَالْحَاصِلُ أَنَّ مَا شَاعَ فِي زَمَانِنَا مِنْ قِرَاءَةِ الْأَجْزَاءِ بِالْأُجْرَةِ لَا يَجُوزُ؛ لِأَنَّ فِيهِ الْأَمْرَ بِالْقِرَاءَةِ وَإِعْطَاءَ الثَّوَابِ لِلْآمِرِ وَالْقِرَاءَةَ لِأَجْلِ الْمَالِ؛ فَإِذَا لَمْ يَكُنْ لِلْقَارِئِ ثَوَابٌ لِعَدَمِ النِّيَّةِ الصَّحِيحَةِ فَأَيْنَ يَصِلُ الثَّوَابُ إلَى الْمُسْتَأْجِرِ وَلَوْلَا الْأُجْرَةُ مَا قَرَأَ أَحَدٌ لِأَحَدٍ فِي هَذَا الزَّمَانِ بَلْ جَعَلُوا الْقُرْآنَ الْعَظِيمَ مَكْسَبًا وَوَسِيلَةً إلَى جَمْعِ الدُّنْيَا - إنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إلَيْهِ رَاجِعُونَ - اهـ.". ( الدر المختار مع رد المحتار: (6 / 56 ) باب الإجارة الفاسدة ، مطلب في الإستيجار علي المعاصي ، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں