ہمارے علاقے میں بہت عرصے سے کھیل کے میدانوں میں کرکٹ،والی بال اور فٹ بال کے ٹورنامنٹ اور لیگ منعقد کی جاتی ہے، اس میں عوام تو عوام بعض خواص بھی شرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، ہم آپ حضرات سے ان کھیلوں کے متعلق مختصر صورت حال بیان کر کے آخر میں صرف دو سوالات کے جوابات طلب کرتے ہیں، صورت حال ٹورنامنٹ کی یہ ہوتی ہے کہ ایک ٹیم کمیٹی کی حیثیت سے باقی تمام ٹیموں سے انٹری فیس متعینہ طور پر مثلا فی ٹیم سے 5 ہزار اپنے پاس جمع کر لیتی ہے، اور خود کمیٹی ٹیم اپنی انٹری فیس جمع نہیں کرتی، اس طرح یہ کمیٹی ٹیم شہر کے مال دار قسم کے لوگوں سے، اسی طرح ممبر حضرات سے بھی بسا اوقات تعاون حاصل کرتی ہے، پھر مجموعی رقم کو کمیٹی واپس اپنے اختیار سے تین مقامات پر خرچ کر تی ہے، ٹورنامنٹ میں جو خرچہ آئے، مثلا گیند، ٹیپ اور مہمان خصوصی وغیرہ کااکرام وغیرہ، فائنل میں پہنچنے والی دونوں ٹیموں کو ٹرافی اور انعامات بصورت رقم دیے جاتے ہیں، بعد از ٹورنامنٹ طعام کا پروگرام ہوتا ہے، جس میں صرف کمیٹی والے کو اور فائنل والی دونوں ٹیموں کو بلایا جاتا ہے، اور ان کے ساتھ مہمان خصوصی جنہوں نے خاص تعاون کیا ہو ان کو بھی بلایا جاتا ہے، ان کے علاوہ باقی تمام ٹیمیں جو ٹورنامنٹ میں شریک تھیں انعامات سے بھی اور کھانے کے پروگرام سے محروم رہتی ہیں۔ اسی طرح کی صورتِ حال لیگ کی بھی ہوتی ہے مگر لیگ میں ٹیمیں محدود ہوتی ہیں، مثلاً 5 یا 6 ٹیمیں ہوتی ہیں، لیگ میں بعض اوقات کھلاڑیوں سے انٹری فیس لی جاتی ہے اور بسا اوقات ٹیم سے باہر کے ایک شخص جس کو اونر کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ٹیم کی انٹری فیس وہ خود جمع کراتا ہے اور یہ ٹیم اس کے نام پر ہوتی ہے مثلاً عبد اللہ کی ٹیم، پھر اس رقم کو سابقہ صورت کی طرح خرچ کیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ اور اس لیگ کا کیا حکم ہے؟، نیز اس کھیل میں کھیلنا، اس کو دیکھنا اور اس کھیل کی کمیٹی سے تعاون کرنے کا کیا حکم ہے؟ اگر یہ ناجائز ہے تو کیا ٹورنامنٹ، لیگ اور دوستانہ میچ کے جواز کی اگر کوئی صورت ہے تو ان کے بارے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں۔
کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلنے اور اس کا شرعی حکم معلوم کرنے سے قبل ایک تمہید ملحوظ رہنا چاہیے کہ کسی بھی قسم کا کھیل کھیلنا درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1- وہ کھیل بذاتِ خود جائز کھیل ہو، اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔
2- اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت ہو مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ۔
3- کھیل میں غیر شرعی امور (مثلاً جوا وغیرہ) کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو۔
4- کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔
اگر ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلا جائے تو فی نفسہ ایسا ٹورنامنٹ کھیلنے کی اجازت ہے،تاہم ٹورنامنٹ میں یہ شرط رکھنا کہ ہر ٹیم ایک مخصوص رقم جمع کرائے گی اور پھر اس رقم سے ٹورنامنٹ کے اخراجات نکالنے کے بعد جو رقم بچے گی وہ جیتنے والی ٹیم (ونر ٹیم) کو ملے گی، ٹورنامنٹ میں اس طرح کی شرط "قمار" یعنی جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے،جس سے بچنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے، کیوں کہ اس صورت میں ایک ٹیم کو اپنی جمع کرائی گئی رقم سے زیادہ رقم مل جاتی ہے جو کہ باقی ٹیموں کی جمع کرائی گئی رقم سے ہی نکال کردی جاتی ہے اور باقی ٹیموں کی رقم ڈوب جاتی ہے، اس طرح کا معاملہ بھی سود اور قمار میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہے، لہذا اس طرح کے کسی بھی کھیل کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کرنا یا اس میں شرکت کرنا سب ناجائز ہے۔
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ کمیٹی خود بھی بطور ٹیم اس ٹورنامنٹ میں شریک ہوتی ہے اور شریک ٹیموں سے رقم جمع کرتی ہے اور یہ طے کرتی ہے کہ اس میں سے ایک حصہ کھیل پر خرچ ہوگا اور بقیہ حصہ فائنل کھیلنے والی دونوں ٹیموں کا ہوگا یعنی انعامی رقم اور طعام کے انتظام کی صورت میں، جبکہ دیگر ٹیمیں انعامی رقم اور طعام سے محروم رہتی ہیں، لہذا اس طرح کا ٹورنامنٹ "قمار" یعنی جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ یہی حکم لیگ کا بھی ہے، کیوں کہ اس میں جو اونر ہوتا ہے وہ اپنی ٹیم کی طرف سے انٹری فیس جمع کراتا ہے اور اس میں بھی ہار جیت کی صورت میں جمع کرائے گئے پیسے ضائع ہوسکتے ہیں یا ان سے اضافی پیسے مل سکتے ہیں، لہذا یہ صورت بھی سود اور قمار والی بن جائے گی۔
البتہ اس کی جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اگر مختلف ٹیموں میں مقابلہ کروانے کی کوئی علیحدہ ٹورنامنٹ کمیٹی ہو جس کا تعلق کسی ٹیم سے نہ ہو، اور وہ کرکٹ ٹورنامنٹ کمیٹی ہر ٹیم سے مقابلہ میں داخلہ کی فیس کے طور پر متعین رقم (انٹری فیس) وصول کرے اور یہ رقم (انٹری فیس) کمیٹی کو مالک بنا کر دے دی جائے، پھر ٹورنامنٹ کمیٹی اس جمع شدہ رقم میں سے ٹورنامنٹ کے اخراجات کرے اورجیتنے والوں کو یا کھیل میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو حسبِ صواب دید انعام دے اور اس بارے میں مکمل با اختیار ہو کہ کم یا زیادہ جتنا چاہے انعام مقر رکرے اور چاہے نقد رقم انعام میں دے یا کوئی ٹرافی وغیرہ دے تو یہ صورت جائز ہے ، بشرطیکہ مقابلہ اور کھیل میں مذکورہ شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔یہی حکم لیگ کا بھی ہے۔
نیز جس صورت میں ٹورنامنٹ جائز ہوگا اس صورت میں اس میں شرکت کرنا اور تعاون کرنا بھی جائز ہوگا اور جس صورت میں ٹورنامنٹ جائز نہیں ہوگا اس صورت میں اس میں شرکت کرنا اور تعاون کرنا بھی جائز نہیں ہوگا، باقی اس کا دیکھنا بہر صورت عبث (بے کار) کام ہے۔ نیز ان مقابلوں اور انتظامات میں اپنی صلاحیتیں، وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کے بجائے کسی مفید کام میں اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ صرف کیا جائے۔
تکملہ فتح الملہم میں ہے:
"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."
( کتاب الشعر، ج:4، ص:258، ط: دارالعلوم کراچی)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس) والبغل والحمار، كذا في الملتقى والمجمع، وأقره المصنف هنا خلافاً لما ذكره في مسائل شتى، فتنبه، (والإبل و) على (الأقدام) ... (حل الجعل) ... (إن شرط المال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين)؛ لأنه يصير قمارًا (إلا إذا أدخلا ثالثًا) محللاً (بينهما) بفرس كفء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز ثم إذا سبقهما أخذ منهما وإن سبقاه لم يعطهما وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه ... وأما السباق بلا جعل فيجوز في كل شيء كما يأتي.
(قوله: من جانب واحد) أو من ثالث بأن يقول أحدهما لصاحبه: إن سبقتني أعطيتك كذا، وإن سبقتك لا آخذ منك شيئًا، أو يقول الأمير لفارسين أو راميين: من سبق منكما فله كذا، وإن سبق فلا شيء له، اختيار وغرر الأفكار. (قوله: من الجانبين) بأن يقول: إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك، كذا زيلعي. وكذا إن قال: إن سبق إبلك أو سهمك إلخ تتارخانية. (قوله: لأنه يصير قمارًا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قمارًا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد؛ لأن الزيادة والنقصان لاتمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلاتكون مقامرةً؛ لأنها مفاعلة منه، زيلعي. (قوله: يتوهم أن يسبقهما) بيان لقوله: كفء، لفرسيهما أي يجوز أن يسبق أو يسبق (قوله: وإلا لم يجز) أي إن كان يسبق أو يسبق لا محالة لايجوز؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "«من أدخل فرسًا بين فرسين وهو لايأمن أن يسبق فلا بأس به، ومن أدخل فرسًا بين فرسين وهو آمن أن يسبق فهو قمار». رواه أحمد وأبو داود وغيرهما، زيلعي."
(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 403، ط: ايچ ايم سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601102079
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن