بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف فنڈز کے نام پر تنخواہ سے کی جانے والی کٹوتی اور اس پر ملنے والے نفع کا حکم


سوال

1-  حکومت اور بعض کمپنیاں ملازمین کی تنخواہ سے ہر مہینے کچھ رقم کاٹتی ہیں اور اس پر منافع لگا کر ملازم کے کھاتے میں جمع رکھتی ہیں۔ یہ کٹوتی حکومت یا کمپنی کی طرف سے جبری ہوتی ہے،  ملازم کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔ البتہ  ملازم کو نفع لینے یا نہ لینے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ جو ملازم نفع نہ لینا چاہے وہ محکمہ کو درخواست لکھتا ہے،  جسے محکمہ قبول کرکے ملازم کی تحسین کرتا ہے اور اس کی کٹوتی والی تنخواہ پر منافع نہیں لگاتا ،  بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد اصل رقم ہی ملازم کو دے دیتا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ ملازم کے لیے مذکورہ صورت میں ملنے والا نفع حلال ہے یا حرام اور سود میں داخل ہے؟

2- بعض کمپنیوں کے ہاں یہ صورت بھی پائی جاتی ہے کہ ملازم کی کٹوتی والی تنخواہ پر جب سال مکمل ہوجاتا ہے تو اس پر سالانہ نفع بھی لگایا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ اس صورت میں ملازم کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ جب اس کی کاٹی جانے والی تنخواہ ایک لاکھ کو پہنچ جائے تو وہ اسے نکال سکتا ہے، اگر اختیار کے باوجود ملازم نہیں نکالتا تو سال گزرنے پر کمپنی اسے نفع دیتی ہے۔

اس صورت میں ملازم کو ملنے والے نفع کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

سرکاری و نجی اداروں کی طرف سے ملازمین کے لیے پراویڈنٹ فنڈ، GP فنڈ، و دیگر  کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور اس فنڈ میں شمولیت کے لیے  ملازمین اپنی تنخواہ میں سے کچھ فی صد کٹوتی کرواتے ہیں جو کہ ہر ماہ اس فنڈ میں جمع کرلی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے وقت کمپنی جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کو دے دیتی ہے، اس کی چند صورتیں ہیں:

پراویڈنٹ فنڈ کی رائج صورتیں:

1۔ بعض کمپنیز اپنے ہر ملازم کو جبرًا اس فنڈ کا حصہ بناتی ہیں اور  ملازم کو عدمِ شمولیت کا اختیار نہیں دیتیں، جس کی وجہ سے ہر ماہ تنخواہ دینے سے پہلے ہی طے شدہ شرح کے مطابق جبری کٹوتی کرلی جاتی ہے اور بقیہ تنخواہ ملازم کو دے دی جاتی ہے۔

2۔ بعض کمپنیز کی طرف سے ہر ملازم کے لیے اس فنڈ کا حصہ بننا لازمی نہیں ہوتا ، بلکہ کمپنی اپنے ملازمین کو اختیار دیتی ہے کہ اپنی مرضی سے جو ملازم اس فنڈ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اس فنڈ کا حصہ بن سکتا ہے اور کمپنی ملازمین کی اجازت سے ہر ماہ طے شدہ شرح کے مطابق ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کرکے مذکورہ فنڈ میں جمع کرتی رہتی ہے۔

3۔ بعض کمپنیز ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ ملازمین کو یہ اختیار بھی دیتی ہے کہ اگر کوئی ملازم اس فنڈ میں مقررہ شرح سے زیادہ رقم جمع کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے؛ اس قسم کی کٹوتی کو جبری و اختیاری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔

مذکورہ صورتوں میں ملنے والے اضافے کا حکم:

1۔ پہلی صورت( جبری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ یہ فنڈ کمپنی کی طرف سے ملازمین کے لیے تبرع و انعام ہوتا ہے اور  ملازمین کے لیے یہ لینا شرعًا جائز ہوتا ہے ۔ احتیاطًا یہ اضافہ نہ لیا جائے تو بہترہے۔

2۔ دوسری  قسم (اختیاری کٹوتی)  کا حکم یہ ہے کہ ملازمین نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے اتنی ہی جمع شدہ رقم وہ لے سکتے ہیں، زائد رقم لینا شرعًا  جائز نہیں ہوتا ۔ البتہ اس صورت میں اگر کمپنی ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی کے ساتھ ساتھ اپنی طرف سے بھی کچھ رقم ملا کر پھر اسے سودی انویسٹمنٹ میں لگا کر نفع دیتی ہے تو جیسے ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی کردہ رقم ملازم کے لیے حلال ہوگی اسی طرح ابتدا میں کمپنی کی طرف سے شامل کی گئی رقم بھی ملازم کے لیے حلال ہوگی، لیکن ان دونوں رقموں پر لگنے والا انٹرسٹ جائز نہیں ہوگا۔

3۔ تیسری صورت ( جبری واختیاری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ جتنی کٹوتی  جبرًا  ہوئی ہے اس پر ملنے والی زائد رقم ملازم کے لیے لینا شرعًا جائز ہوتا ہے اور جتنی رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے اس پر  ملنے والی زائد رقم لینا جائز نہیں ہوتا ۔

مذکورہ تفصیل کے بعد سائل کے سوالات کا نمبر وار جواب یہ ہے:

1۔ پہلی صورت میں حلال ہے، جب کہ دوسری صورت میں حرام ہے، اور تیسری صورت میں جبری کٹوتی پر ملنے والا نفع حلال اور اختیاری کٹوتی پر ملنے والا نفع حرام ہے۔

2۔ تفصیل بالا کے مطابق حلال یا حرام ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔

3۔ کٹوتی ایک لاکھ کو پہنچ جانے کے بعد اگر رقم نکالنے کی ملازم کو اجازت ہو تو نہ نکالنے کی صورت میں ملنے والا نفع حلال نہ ہوگا، البتہ اگر نکالنے کی اجازت نہ ہو تو جبری کٹوتی کی صورت میں ریٹائرمنٹ تک ملنے والا تمام نفع لینے کی اجازت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں