بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف فنڈ میں میراث جاری ہونے کی تفصیل


سوال

 میرے والد مرحوم نے دو شادیاں کی تھی پہلی بیوی سے ایک بیٹا( میں سائل )اور ایک بیٹی ہے،جب کہ ہماری والدہ کا انتقال ہوچکا ہے، اور دوسربیوی  سے کوئی اولاد نہیں ہے، اب میرے والد کا انتقال ہو چکا ہے، وہ چونکہ سرکاری ملازم تھے تو ان کے نام سے درج ذیل فنڈ جاری ہوئے ہیں یا ہوں گے :

1۔ گریجویٹی فنڈ۔2۔ گروپ انشورنس۔3۔جی پی فنڈ۔4۔4  ماہ کی تنخواہ۔5۔مالی امداد۔6۔ پینشن۔7۔بینوولنٹ فنڈ   میں سے ماہانہ امداد۔

یہ مرحوم کی دوسری بیوہ ایک بیٹے اور ایک بیٹی میں کیسے تقسیم ہوں گے؟ اور جن فنڈ میں ہمارا  یعنی مرحوم کے بیٹے اور  بیٹی کا حق بنتا ہو لیکن قانونا یا  والدہ دینے سے انکار کر ے، تو کیا اس کا گناہ والدہ کو ملے گا؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں والد مرحوم کے ترکہ کو تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے، مرحوم کے حقوق ِمتقدمہ یعنی میت کے کفن دفن کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگرمرحوم پر  قرض ہو تو اس کی کل مال سے ادائیگی کے بعد، اور اگرمرحوم نے کوئی جائز  وصیت کی ہو تو اس   کو  باقی ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد  ،بقیہ ترکہ منقولہ و غیر منقولہ  کو 24 حصوں میں تقسیم کرکے 3 حصے  مرحوم کی بیوہ کو اور 14 حصے مرحوم کے بیٹے کو اور 7 حصے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:والد مرحوم: مسئلہ:24/8

بیوہبیٹابیٹی
17
3147

فیصدی اعتبار سے مرحوم کی بیوہ کو 12.5 فیصد اور بیٹے کو 58.33 فیصد اور بیٹی کو 29.16 فیصد ملے گا۔

2۔مرحوم کو ملنے والے مختلف اقسام کے فنڈمیں میراث کے جاری ہونے اور نہ ہونے کی تفصیل:

ا۔ گریجویٹی فنڈ:

واضح رہے کہ  حکومتی ملازم  جب ریٹائر ہوتا ہے  تو اس کو گریجویٹی فنڈ کے نام سے کچھ رقم بطورِ مراعات ملتی ہے ،یہ رقم تنخواہ کا حصہ نہیں ہوتی،بلکہ  ادارہ کی طرف سے ملازم کے لیے  انعام و عطیہ ہوتی ہے، یہ رقم  ریٹائرمنٹ کے وقت سے ہی دو حصوں میں تقسیم  کر کے دی جاتی ہے،اس میں سےکچھ  رقم فورا  ملازم کو دے دی جاتی ہے جسے" گریجویٹی"  کہا جاتا ہے اور وہ ملازم کی ملکیت ہی شمار کی جاتی ہےاورملازم کی وفات کےبعداس کی  وراثت میں تقسیم ہوتی ہے، لیکن اگر مذکورہ رقم ادارہ کی طرف سے   ملازم کی وفات کے بعد ملی تو ایسی صورت میں  ادارہ یہ رقم  جس شخص کو نامزد کرکے دے وہی اس رقم کا حق دار ہوتا ہے،اس صورت میں یہ رقم  وراثت میں تقسیم نہیں ہوتی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد مرحوم  اپنی  زندگی میں گریجویٹی  فنڈ کی جتنی رقم وصول کی ہے، مرحوم  ہی اس کےمالک تھے، اور مرحوم کے انتقال کے بعد یہ رقم ان کے ترکہ میں شامل ہوکر ورثاء میں شرعی طریقہ کے مطابق تقسیم ہوگی، (جیسے کہ جواب نمبر 1 میں مذکور ہے)نیز   گریجویٹی فنڈ کی وہ رقم جو اب تک مرحوم کو  نہیں ملی ہے، مرحوم کے انتقال کے بعد بیوبیٹے یا بیٹی  میں سے جس کے نام  پر  گورنمنٹ یہ رقم جاری کرے وہی اس کا مالک ہوگا، یہ مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگی۔

ب۔گروب انشورنس:

گروپ  انشورنس کے نام پر  مرحوم  کی تنخواہ سے جو رقم جمع کی گئی تھی اگر وہ اختیاری تھی تو وہ رقم اور ان کے سرکاری محکمے  کی طرف سے جو رقم جمع کرائی گئی تھی، ان دونوں کا مجموعہ رقم حلال ہے، اس کو ترکہ میں شامل کرکے  تمام وارثوں میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جاۓ گا (جیسے کہ جواب نمبر 1 میں مذکور ہے)، ان دونوں رقم کے علاوہ جو زائد رقم ہے وہ سود ہے، اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، زائد رقم  واپس کرنا ممکن ہے ،تو  واپس کردے، ورنہ ثواب کی نیت کے بغیر مستحق  زکوۃ لوگوں میں  صدقہ کردیں،اور گروپ انشورنس جبری تھی، تو مذکورہ رقم سائل کی والد مرحوم کی ملکیت نہ تھی، لہذا گروپ انشورنس کی رقم کا مجموعہ  جائز ہوگا اور کل رقم پر میراث جاری ہوگی اور تمام ورثاء اپنے شرعی حصص کے بقدر حقدار ہوں گے۔

ج:جی پی فنڈ:

ادارہ ملازمین  کی تنخواہ سے ہر ماہ کچھ نا کچھ فیصد رقم   منہا کرکے انوسٹ کرتا اور ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے وقت مع منافع یہ رقم لوٹاۓ جاتی ہے، لہذا اس کی دو صورتیں ہیں،  ہر ماہ جو کٹوتی ہوتی ہے وہ یا تو اختیاری ہوگی یا تو   جبری۔

اختیاری کٹوتی کا حکم:  اس صورت کا حکم یہ ہے کہ سائل کے  والد مرحوم نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے  اتنی ہی جمع شدہ رقم  اور جتنی رقم ادارے نے ابتدا میں اپنی طرف سے ملائی تھی وہ لے سکتے تھیں،  ان دونوں رقموں کو انویسٹ کرکے جو رقم حاصل ہوئی ہے وہ زائد رقم لینا ان کے لیے  شرعاًجائز نہیں تھا ؛ کیوں کہ اس صورت میں انہوں  اپنے اختیار سے کٹوتی کروائی تھی، گویا وہ اپنی جمع شدہ رقم کو سودی انویسٹمنٹ میں صرف کرنے پر راضی تھے، لہٰذا یہ اضافہ لینا ان کے لیے  جائز نہیں تھا؛ کیوں کہ سودی معاملے پر رضامندی بھی ناجائز ہے، چناں چہ اس صورت میں سائل  کے لیے اس مد میں ملنے والی رقم میں سے اصل رقم لینا جائز ہے ، زیادتی کا لینا ناجائز ہے، لہذا اصل رقم تمام ورثاء کے درمیان میراث کے شرعی قواعد کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہے۔ 

جبری کٹوتی کا حکم:اس صورت حکم یہ ہے کہ یہ فنڈادارے کی طرف سے ملازمین کے لیے تبرع و انعام کی طرح  ہوتا ہے اور ملازمین کے لیے یہ لینا شرعاً جائز ہوتا ہے ، اس لیے ملازم نے اپنی رضامندی سے رقم جمع نہیں کروائی، ادارہ اس سے جس طرح بھی نفع کمائے ملازم اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اور قانوناً وشرعاً ابھی تک مذکورہ رقم اس کی ملکیت میں بھی نہیں ہوتی ؛ لہٰذا اس کے لیے اضافی رقم لینا جائز ہوگا، چناں اس صورت میں جی پی فنڈ کے مجموعے پر میراث جاری ہوگی، اور اس کو میراث کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہوگا۔

د۔ 4 ماہ کی تنخواہ:

مرحوم کے انتقال پر ملنے والی چارہ ماہ کی تنخواہ ادارے کی طرف سے  دی جارہی، اگر یہ وہ تنخواہ جو کہ اعزازی چھٹی کے عوض ملتی ہے، تو یہ مرحوم کا ترکہ ہے اور تمام ورثاء میں شرعی طور پر تقسیم ہوگا۔

ھ۔مالی امداد :

مالی امداد ادارے کی طرف سے عطیہ اور ہبہ ہوتا ہے،اور یہ   اسی کا ہوتا ہے جسے دینے والا دیتا ہے ؛سائل کے والد مرحوم کے انتقال پر والی مالی امدادادارہ ورثاء میں سے  جس کے نام پر جاری کرے گا، وہی اس امداد  کا مالک ہو گا، اور اس کو میراث میں تقسیم نہیں کیا جاۓ گا۔

و۔پینشن:

واضح رہے کہ پینشن ادارے کی طرف سے عطیہ اوور ہبہ ہوتا ہے،اور یہ  اسی کا ہوتا ہے جسے دینے والا دیتا ہے ؛لہذاسائل کے والد مرحوم اپنی زندگی میں جو پینشن وصول کی تھی وہ ان کی ملکیت ہے، لہذا اس پر میراث جاری ہوگی، لیکن ان کے انتقال کے بعد ادارہ ورثاء میں سے  جس شخص  کو نامزد کرکے مرحوم کی پینشن جاری کرے گا، وہی مرحوم کی پینشن کا مالک ہوگا اور اس میں میراث جاری نہیں ہوگی۔

ذ۔یبنوولنٹ فنڈ:

واضح رہے کہ یبنوولنٹ فنڈ  ادارے کی طرف سے عطیہ اور ہبہ ہوتی ہے،اور یہ اسی کا ہوتا ہے جسے دینے والا دیتا ہے ؛ اس لیے یہ فنڈ ورثاء میں سے ان ہی کا  ہوں گا جسکو ادارہ نامزد کرکےدے گا،لہذا اس میں بھی میراث جاری نہیں ہوگی۔ 

3۔جن فنڈ سائل اور سائل کی بہن کا حصہ ہے، اگر سائل کی سوتیلی والدہ نے نہ دیا تو وہ گناہ گار ہوگی اور قیامت کے دن سخت پکڑ ہوگی۔

چناں چہ قرآن کریم میں اللہ تعالی میراث کے احکام کو تفصیل کے ساتھ بیان   کرنے کے بعد مزید یہ فرماتے ہیں کہ:

"تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (13)وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ(14)."(سورة النساء)

ترجمہ:"یہ سب احکام مذکورہ خداوندی ضابطے ہیں ۔ اور جو شخص الله اور رسول کی پوری اطاعت کرے گا الله تعالیٰ اس کو ایسی بہشتوں میں داخل کردیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے ۔ (13)

اور جو شخص الله اور رسول کا کہنا نہ مانے گا اور بالکل ہی اس کے ضابطوں سے نکل جاوے گا اس کو آگ میں داخل کریں گے اس طور سے کہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسی سزا ہوگی جس میں ذلت بھی ہے۔ (14)" (بیان القرآن)

لہذا ان دو آیتوں کی رو سے میراث کے قواعد و احکام  اللہ تعالی کے مقرر کردہ ضابطے ہیں، ان ضوابط پر عمل کرنا لازم ہے، لہذا جو شخص  میراث کےان قواعد کے  مطابق  عمل کرے گا، یعنی ہر ایک وارث کو اس کا میراث کا حصہ دے گا تو  وہ اللہ تعالی اور رسول اللہ  ﷺ کا  مطیع و فرمانبردار ہو کر جنت کا مستحق ٹھرے گا، اور جو  شخص ان احکامات کی خلاف ورزی کرے گا، وہ اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کا نافرمان ہوگا، نیز جہنم کا مستحق ہوگا۔

حدیث نبوی ﷺ میں ہے:

"من قطع میراث وارثه قطع اللہ میراثه من الجنة یوم القیامة."

(مشکاة،‌‌كتاب الفرائض والوصايا، باب الوصایا، الفصل الثالث،926/2، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جوشخص اپنے وارث کے حصے کو ختم کردے(تو) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا حصہ جنت سے ختم کردے گا"۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن تركه الميت من الأموال صافيًا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال، كما في شروح السراجية."

(کتاب الفرائض،759/6، ط: سعید)

شرح المجلہ میں ہے:

"المادة (2 9 0 1) - (كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين وارثيه على حسب حصصهم كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين وارثيه على حسب حصصهم)."

(الکتاب العاشر الشرکات، الباب الأول في بیان شركة الملك ج:3،ص:55،ط: المكتبة الطارق)

درر الحكام فی شرح مجلۃ الأحكام میں ہے:

"فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية،‌‌(المادة 57) لا يتم التبرع إلا بقبض،ج:1،ص:57،ط:دار الجيل)

موسوعۃ القواعد الفقہیۃ   میں ہے:

"ما حصل بسبب خبيث فالسّبيل ردّه ...؛ لأنّ سبيل الكسب الخبيث التّصدّق إذا تعذّر الردّ على صاحبه، ويتصدّق بلا نيَّة الثّواب له، وإنّما ينوى به براءة الذّمّة".

(‌‌حرف الميم، القاعدة الثالثة والسّبعون، ج9 ص 124 ط: مؤسسة الرسالة، بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه. اهـ."

 

(کتاب الحظر والإباحة،فصل فی البیع،385/6، ط: سعید)

امداد الفتاویٰ میں ہے :

"   چوں کہ میراث اموال مملوکہ میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسان سرکار کا ہے  بدون قبضہ مملوک نہیں ہوتا ،لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں  میراث جاری نہیں ہوگی ،سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے  تقسیم کردے۔"

(کتاب الفرائض  ج 4 ص 342 ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

 جواہر الفقہ میں حضر ت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

"جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے  ،وہ شرعا سود نہیں  بلکہ اجرت(تنخواہ)ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے  ، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ  سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے ، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔"

(ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں