بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف اوقات میں صریح الفاظ سے تین طلاق دینے کا حکم


سوال

عرض یہ ہے کہ میری شادی کے چار یا پانچ سال بعد میرے تیسرے بچے کی پیدائش ہونے والی تھی ،میرے شوہر نے مجھے کافی سارے لوگوں کی موجودگی میں دو بار ان الفاظ سے طلاق دی کہ"میں اسِے طلاق دیتا ہوں"،طلاق کے بعد رجوع ہوگیا تھا،پھر تقریباً آٹھ یا نو سال بعد دو لوگوں کی موجودگی میں مجھے دوبارہ ان الفاظ سے طلاق دی کہ"میں نے اسِے طلاق دی"اس کے بعد بھی ساتھ ہی رہ رہے تھے،اب تقریباً بارہ سال بعد میرے بیٹے کے سامنے تین بار طلاق دی ہے،بیٹے کا بیان یہ ہے  کہ" والد صاحب کے ساتھ میری تلخ کلامی ہوئی ،جس میں میرے والد صاحب نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور غصے میں میری ماں کو دو بار یہ جملہ کہا کہ "میں تیری ماں کو طلاق دیتا ہوں" اور پھر مجھے کمرے سے نکال دیا اور تیسری بار یہ جملہ کہا کہ "میں اب تیری ماں کوفیصلہ دیتا ہوں"،اس وقت میری والدہ وہاں موجود نہیں تھیں ،وہ میرے چچا کے گھر پر تھیں،میرے چچا اور چچی وہاں موجود تھے۔

اب آپ شریعت کی روشنی میں  راہ نمائی فرمائیں کہ مجھے طلاق ہوئی یا نہیں ؟اگر ہوگئی تو کتنی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے شوہر نے تیسرے بچے کی پیدائش سے قبل دو بار یہ جملہ کہا کہ"میں اسِے طلاق دیتا ہوں"تو مذکورہ جملے سے سائلہ پر دو طلاق رجعی واقع ہوگئی تھیں،البتہ اس کے بعد رجوع ہونے کے سبب نکاح برقرار تھا،پھر اس معاملہ کے آٹھ یا نو سال بعد جب شوہر نے دو لوگوں کے سامنے یہ جملہ کہا کہ"میں نے اسے طلاق دی"تو سائلہ پر مجموعی اعتبار سے تین طلاقیں واقع ہوگئی تھیں اور وہ  اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی تھی ،نکاح ختم ہوگیا تھا،رجوع اور مزید ساتھ رہنے کی گنجائش نہ تھی؛لہٰذا تین طلاقوں  کے بعد سے اب تک جتنا عرصہ سائلہ اپنے شوہر کے ساتھ رہی وہ ناجائز اورحرام تھا،اب علیحدگی کے  بعد اس پر توبہ اور استغفار لازم ہے،نیز مطلقہ اپنی  عدت(مکمل تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہو گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الفصل الأول في الطلاق الصريح) . وهو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك وتقع واحدة رجعية وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا كذا في الكنز."

(کتاب الطلاق،الباب الثانی ،الفصل الأول فی الطلاق الصریح،1/ 354،ط:رشیدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - ﴿فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَه﴾[البقرة: 230] ،وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

( کتاب الطلاق،فصل في حكم الطلاق البائن،3/ 187،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں