بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف اجناس کی آن لائن تجارت کا حکم


سوال

 کیا آن لائن اجناس (تیل، سونا اور چاندی وغیرہ) کی تجارت حلال ہے؟  جہاں ہمیں اپنی خرید و فروخت کا اختیار حاصل نہیں ہوتا لیکن نفع و نقصان کی ذمہ داری فوری طور پر ہم پر منتقل ہو جاتی ہے اور مقدار ہمارے اکاؤنٹ میں جمع کر دی جاتی ہے اور ہم اس مقدار کو فروخت کر سکتے ہیں  مارکیٹ کی شرح پر کسی بھی وقت جب ایک بار خرید لیا۔  ہم لین دین کے نفع/نقصان کے ذمہ دار ہوں گے۔ بروکر ہماری سرمایہ کاری کو سیکیورٹی ڈپازٹ سمجھ کر بغیر کسی سود کے ہماری سرمایہ کاری سے زیادہ خریدنے کا فائدہ بھی دے رہا ہے۔ تاہم ہم اپنے تمام نفع و نقصان کے ذمہ دار ہوں گے۔ آخر میں اگر ہم بروکر کے ساتھ اپنا اکاؤنٹ بند کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اس بروکر کے ذریعے اپنی تمام اشیاء صرف موجودہ مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرنی ہوں گی اور منافع یا نقصان کے ذمہ دار ہوں گے۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں سونا چاندی  کی آن لائن خرید و فروخت کرنا تو بہر صورت  جائز نہیں ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ "سونا ۔چاندی"ایسی جنس ہیں کہ جن کی بیع درست ہونے کے لیے  ضروری ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو اور مجلسِ عقد میں جانبین سے عوضین پر قبضہ پایا جائے۔

نیز تیل یا دیگر کسی جنس کی آن لائن خرید و فروخت کے حوالہ سے شرعی حکم یہ ہے کہ  اگر تیل وغیرہ  کی واقعۃً خرید و فروخت ہو، صرف قیمت بڑھنے یا گھٹنے کی بنیاد پر نفع یا نقصان کا تعین اور تقسیم نہ ہو،  اوربائع جو فروخت کرے وہ اس کے فیصد میں ہو اس کے علاوہ اور کوئی غیر شرعی معاملہ نہ ہو تو تیل کا کاروبار جائز ہوگا وگرنہ ناجائز ہوگا۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ابتاع طعاماً فلايبعه حتى يستوفيه»، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله."

(کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ج:3، ص:1159، ط:دار إحیاءالتراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) يصح ... (بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه ... والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز ... وفي المواهب: وفسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما ... (قوله: ونفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان والفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، وكثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، فصل في التصرف في المبیع الخ، ج:5، ص:147/148، ط:سعید)

فتاویٰ  ہندیہ میں ہے:

"من حكم المبيع إذا كان منقولاً أن لايجوز بيعه قبل القبض."

(کتاب البیوع، الباب الثاني، الفصل الثالث، ج:3، ص:۱۳، ط:رشیدیة)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

(قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الإفتراق."

(باب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دارالكتبة العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505102111

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں