بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف فیہ مسئلہ میں استخارے کا حکم


سوال

کسی کام کے شرعی طور پر جواز یا عدم جواز کے حوالے سے اگر اختلافِ رائے ہو ،تو ایسے کام کو کرنے نہ کرنے کے سلسلے میں استخارہ کرنا مناسب ہے یا نہیں؟ یعنی اللہ سے یہ دعا کرنا کہ اے اللہ تو اس سلسلے میں میری راہ نمائی فرما کہ میں کس بات پر عمل کروں ، پھر طبعیت کا جس طرف رجحان ہو جائے، اس پر عمل کر لے۔

جواب

 استخارہ نام ہے کسی کام میں اللہ تعالی سے خیر طلب کرنے کا،علماء کرام کے درمیان کسی مسئلہ میں علمی اختلاف ہو تو اس  اختلاف میں صواب اور درست رائے معلوم کرنے یا غیب پر مطلع ہونے کے لیے استخارہ نہیں کیا جاتا،اور نہ ہی استخارہ کوئی شرعی حجت ہے ،جس کی بنا پر اختلافی مسئلہ میں کسی جانب  ترجیح دی جائے،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا اختلافی مسئلہ میں راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے استخارہ کرنا صحیح نہیں ہے۔

حاشیہ طحطاوی میں ہے:

"ويستخير في هل يشتري أو يكتري وهل يسافر برا أو بحرا وهل يرافق فلانا أو فلانا لأن ‌الاستخارة في الواجب والمكروه والحرام لا محل لها نهر."

( مدخل، ص: 726، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101629

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں