بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مخالف سمت پر گاڑی چلانے سے اگر کسی کی جان چلے جائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

پاکستان میں روڈ کے بائیں طرف گاڑی چلانے کا قانون ہے جبکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ڈرائیور وقت اور پٹرول بچانے کی خاطر یوٹرن تک پہنچنے کیلئے ٹریفک کے مخالف سائڈ پر چلتے ہیں جس کی وجہ سے ایکسیڈنٹ کاخطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس   طرح مخالف سائڈ پر گاڑی چلاتے ہوئے ڈرائیور کسی کو قتل کرے تو کیا یہ قتل عمد میں شمار نہیں ہوگا؟

جواب

ٹریفک کے قوانین کاا حترام کرنا ہر شہری پر ضروری ہے،  وہ قوانین جو شریعت کے مخالف نہیں ہیں  ،انتطامی امور کی درستگی کے لیے بنائے گئے ہیں،ان کا ماننا ہر شہری پر لازم ہے اور اس کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے،لہذامخالف سمت/سائڈ پر گاڑی چلانے والا  قانون شکنی کی بنیاد پر شرعا گناہ گار ہے،لیکن اگر حادثہ میں  اس سے  کسی کی جان چلے جائے تو شرعا وہ قتل عمد شمار نہیں ہوگا،کیونکہ غلط لائن میں گاڑی چلانے والاکسی کو جان کر قتل نہیں کرتا اور نہ ہی گاڑی شرعی اعتبار سے آلہ قتل ہے،البتہ یہ قتل خطا شمار ہوگا۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"لأن طاعة أمر السلطان بمباح واجبة."

(کتاب البیوع،باب المرابحۃ والتولیۃ،ج5،ص168،ط؛سعید)

وفیہ ایضاً:

"[مطلب طاعة الإمام واجبة]

(قوله: ‌أمر ‌السلطان إنما ينفذ) أي يتبع ولا تجوز مخالفته وسيأتي قبيل الشهادات عند قوله أمرك قاض بقطع أو رجم إلخ التعليل بوجوب طاعة ولي الأمر وفي ط عن الحموي أن صاحب البحر ذكر ناقلا عن أئمتنا أن طاعة الإمام في غير معصية واجبة فلو أمر بصوم وجب اهـ وقدمنا أن السلطان لو حكم بين الخصمين ينفذ في الأصح وبه يفتى."

(کتاب القضاء،فصل فی الحبس،ج5،ص442،ط؛سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله القتل على خمسة أوجه: عمد، وشبه عمد، وخطأ، وما أجري مجرى الخطأ، والقتل بسبب) قال صاحب النهاية: وجه الانحصار في هذه الخمسة هو أن القتل إذا صدر عن إنسان لا يخلو إما أن حصل بسلاح أو بغير سلاح، فإن حصل بسلاح فلا يخلو إما أن يكون به قصد القتل أم لا، فإن كان فهو عمد، وإن لم يكن فهو خطأ

وإن لم يكن بسلاح فلا يخلو إما أن يكون معه قصد التأديب والضرب أم لا، فإن كان فهو شبه العمد، وإن لم يكن فلا يخلو إما أن يكون جاريا مجرى الخطأ أم لا، فإن كان فهو هو وإن لم يكن فهو القتل بسبب."

(کتاب الجنایات،ج10،ص203،ط؛دار الفکر)

الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے:

"أما إذا کان المخطئ أحد المتصادمین کان الضمان علیه باتفاق الفقهاء".

(‌‌‌‌القسم الخامس: الفقه العام،الباب الثالث: الجنايات وعقوباتها: القصاص والديات،ج7،ص5790،ط؛دار الفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"(قال: ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما)؛ لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه؛ لأن القائد لايقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه".

(کتاب الجنایات،ج10،ص330،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں